ملت ایرانیاں برسوں سے تھی / مبتلائے در د و غم، زیر عتاب
جبر و استبداد شاہاں میں اسیر / سرگراں آشفتہ، محکوم عذاب
دین و شرع مصطفی پر قدغنیں / عہد شاہی بے حیا و بے حجاب
پاش پاش آئینہ اقدار دیں / دانش و تہذیب کا خانہ خراب
تب کیا حضرت خمینی نے ظہور / قائد امت، امامِ انقلاب
امتِ مسلم کی فکر و آگہی / اس کے احسانِ نظرسے فیض یاب
اس کے دم سے بندگان جبر نے / توڑ دی زنجیر و طوق اضطراب
کرگئی برباد ہر الحاد کو / ضرب اس کی مثل ضرب بوتراب
شرع و دیں کو آبرو پھر سے ملی / پاگئے آئینے اس سے آب و تاب
اس نے ملت کو دیا درس خودی / کردیا پتھر کو اس نے لعل ناب
ہے وہی معمار ایران جدید / اس سے تمہید شعور و فتح یاب
نسل نو ہے اس کے زیر تربیت / کھل رہے ہیں ہر طرف تازہ گلاب
امت اسلام عصر نو میں ہے / زیر بار منت عالی جناب
وحدت اسلامیاں اس کا پیام / ندرت فکر و عمل اس کا خطاب
مرکزی قائد ہے وہ اسلام کا / ہرجگہ روشن ہے اس کا آفتاب
اس نے بخشا ہم کو یہ زریں اصول / ہے جو ساری دانشوں کا انتخاب
الجہاد و الجہاد و الجہاد / انقلاب و انقلاب و انقلاب