امام علیہ السلام: ظالم حکمران کے زندہ رہنے کی آرزو کرنا ہی بذات خود بڑا گناہ ہے۔
اگر آپ ہمارے اس کالم کا عنوان پڑھ کر تعجب کا شکار ہوئے ہیں تو آپ حق بجانب ہیں کیونکہ خون آ شام ظالم اور ستمگر شخص کےلئے ایک لحظہ مزید زندہ رہنے کی دعا بھی نہیں کرنی چاہئے چہ جائیکہ ہم ان کی صحت و سلامتی کےلئے دعاگو ہوں!!
اس بارے میں امام موسی کاظم علیہ السلام سے ایک دلچسپ روایت نقل کی گئی ہے جو نہایت درس آموز اور عبرت انگیز بھی ہے۔ امام کاظم علیہ السلام کے ایک صحابی کا نام صفوان تھا اور ان کا کام اونٹ اور گھوڑے کرائے پر دینا تھا۔ اسی وجہ سے انہیں "صفوان جمال" کہا جاتا تھا۔ جب امام کاظم علیہ السلام کو اس بات کی اطلاع ملی کہ اس نے حکمران کو اونٹ کرائے پر حوالہ کردیا ہے تو آپ ناراض ہوئے جس پر صفوان نے کہا کہ میں نے اپنے اونٹ حج کے سفر کےلئے کرائے پر دیئے ہیں اور کسی گناہ والے کام کےلئے کرائے پر نہیں دیتا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:" کیا تمہارے دل میں یہ آرزو موجود نہیں کہ حکمران زندہ سلامت سفر سے واپس آ جائے اور تمہیں تمہارے اونٹوں کا کرایہ ادا کرے؟"
صفوان نے کہا: جی ہاں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اسی حد تک ظالم حکمران کے زندہ رہنے کی آرزو کرنا بذات خود بہت بڑا گناہ ہے۔
اسی طرح امام خمینی رحمہ اللہ علیہ بھی فرمایا کرتے تھےکہ اگر آپ صدام اور ریگن کے حق میں بھلائی کرنا چاہتے ہیں تو دعا کریں کہ انہیں موت آ جائے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا قصہ تھوڑا مختلف ہے۔
اسلام ٹائمز کے مطابق، ٹرمپ اپنے احمقانہ اقدامات کے ذریعے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلامی دنیا خاص طور پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی بڑی خدمت کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا تازہ ترین احمقانہ اقدام بیت المقدس کو اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کرنا ہے۔ لہذا جس طرح امام زین العابدین علیہ السلام فرمایا کرتے تھےکہ اگر آپ کا دشمن احمق ہے تو اس پر خدا کا شکر کریں؛ ہم بھی اس احمق امریکی صدر کی سلامتی کےلئے دعاگو ہیں! البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمق انسان بعض اوقات انتہائی خطرناک بھی ثابت ہو جاتے ہیں اور اگرچہ ان کے اکثر اقدامات مدمقابل کےلئے سودمند ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات بہت زیادہ نقصان کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اگرچہ اس کے بعض اقدامات کے باعث اسلامی دنیا اور مسلمان اقوام شدید خطرات سے روبرو ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف ٹرمپ کے یہ اقدامات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامیوں کا بھی بہترین نمونہ ہیں۔ دنیا کے سامنے امریکہ کا حقیقی چہرہ فاش ہو جانا، امریکہ کا عہد شکن اور اعتماد کے قابل نہ ہونا ثابت ہو جانا، بعض عرب ممالک کے پس پردہ قوتوں کا عیاں ہو جانا، سعودی حکام اور متحدہ امارات کے بظاہر مسلمان حکمرانوں کا اصلی چہرہ سامنے آ جانا، آل سعود رژیم کو یمن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی تشویق اور اس کے باعث اندرونی اور علاقائی سطح پر سعودی حکام کی پوزیشن کمزور ہو جانا، ایران سے طے پانے والے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث ایران میں مغرب نواز حلقوں کی سیاسی حیثیت کا خاتمہ، داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی اعلانیہ حمایت، داعش کے خاتمے کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد کا فروغ اور لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کا جبری استعفی اور نظربندی کے ذریعے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول میں ناکامی چند مثالیں ہیں۔
مذکورہ بالا تمام اقدامات اپنے آغاز پر اسلامی دنیا کےلئے ایک بڑا اور خطرناک چیلنج دکھائی دیتے تھے لیکن احمق امریکی حکام اور خطے میں ان کے اتحادی اسلامی دنیا کی عظیم صلاحیتوں اور طاقت سے ناواقف تھے۔ وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی بے پناہ طاقت سے لاعلم تھے جس کے باعث ان کی ہر سازش اور شیطنت کا الٹا نتیجہ ظاہر ہوا اور عالم اسلام میں پہلے سے زیادہ بیداری اور اتحاد ابھر کر سامنے آیا۔ لیکن حال ہی میں ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو غاصب اور قاتل صہیونی رژیم کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کئے جانے کا قصہ ہی الگ ہے۔