جب سبھی سوئے ہوئے تھے، تو وہ تنہا جاگا / جس کا پیغام، سر لوح تمنا جاگا!
درد میں ڈوبے ہر اک خواب کو تعبیر ملی / آنکھ میں مملکتِ نور کا نقشہ جاگا!
دفعتاً جبر کی ہر رات کا سایا ڈوبا / چادرِ شب کو الٹ کر جو سویرا جاگا
عہدِ طاغوت کی زنجیر کہن ٹوٹ گئی / شہرِ خوابیدہ میں آزادی کا نغمہ جاگا
اُس کا احسان یہ کیا کم ہے کہ ہونٹوں پہ مرے / دورِ جمہور کی عظمت کا ترانہ جاگا