حدیث عشق کربلا و دمشق

حدیث عشق کربلا و دمشق

علامہ اقبال:
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق // یکی حُسينؑ رقم کرد و دیگرے زينبؑ

یزیدیت کو میدان کارزار میں شکست، حسینؑ نے دی اور اس شکست کا اعلان کبھی کوفہ کے بازاروں اور کبھی شام کے درباروں سیدۃ زینبؑ نے کیا۔

علامہ اقبال:

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق // یکی حُسينؑ رقم کرد و دیگرے زينبؑ

کربلا صرف روایت نہیں ہے، کربلا تو انقلاب کی تحریک ہے، یہ کسی خاص طبقے کی تحریک نہیں، اس میں سیاہ فام غلام بھی ہیں، حبیب ابن مظاہر جیسے بزرگ صحابی بھی ہیں، اس میں حر جیسے توبہ کرنیوالے بھی ہیں، عباس و علی اکبر جیسے جوان بھی ہیں، اس میں علی اصغر سے شیرخوار بھی ہیں اور کوئی بھی تحریک خواتین کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتی ہے، جس طرح ام المؤمنین اور حضرت خدیجہ ناصرۃ اسلام تھیں، اسی طرح انکی نواسی سیدہ زینب، ناصرہ حسین و حسینت ہیں؛ بقائے اسلام کی اس تحریک کی محافظ ہیں، دس محرم کی شام کو شروع ہونیوالی کربلا کی سالار ہیں۔

مظلوم کی عظمت کے چرچے ہیں، دنیا بھر سے عشاق کے قافلے سوئے کربلا رواں دواں ہیں، وہ جسے دس محرم کو بے یار و مددگار سمجھ کر شہید کر دیا گیا تھا، جس کے قافلے کو لوٹ لیا گیا تھا، جس کے خاندان کو اسیر کر لیا گیا تھا، جس کے لاشے کو بے گور و کفن چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے سر مبارک کو تن سے جدا کر لیا گیا تھا، جس کی لاش پر خاندان پیغمبر کو رونے سے روکا گیا تھا، آج مشرق و مغرب سے قافلے سوئے کربلا روانہ ہیں۔

کربلا عشاق کا کعبہ ہے، ظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے، ظالموں کےلئے پیغام موت ہے، کربلا الٰہی پیغام کی بقا کی ضامن ہے، کربلا قرآن کی عظمتوں کا نشاں ہے، کربلا کا سردار وہ عاشق قرآن تھا کہ سر کٹ گیا تھا مگر نیزے کی نوک پر بھی تلاوت جاری تھی۔

کربلا ہمیشہ زندہ رہنے کےلئے شہید ہو جانے کی تحریک ہے، کربلا انسانی اقدار کی سربلندی کی تحریک ہے، کربلا وہ وعدہ الٰہی ہےکہ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروںگا۔

حسینؑ نے کربلا کی تپتی ریت پر زخموں سے چور چور بدن کے ساتھ اپنا سر خالق کائنات کی بارگاہ میں جھکا کر کہا تھا: "سبحان ربی الاعلی وبحمدہ"  اب پروردگار اپنا وعدہ پورا فرما رہا ہے؛ حسینیتؑ کا عروج اس اعلان کا نتیجہ ہے، جو سیدہ زینب ؑ نے یزید کے دربار میں کیا تھا:" اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد تو ہمارا ذکر ختم نہ کرسکےگا "، وہ آواز جس نے یزید کے دربار کو ہلا دیا تھا، علیؑ کی شیر دل بیٹی کربلا کی شیر دل خاتون کی یہ آواز آج پورے عالم میں گونج رہی ہے؛ کربلا صرف روایت نہیں ہے، کربلا تو انقلاب کی تحریک ہے۔

انسانی رشتوں کی معراج کا نام کربلا ہے، کربلا ہمیشہ زندہ رہنے کےلئے شہید ہونے کا نام ہے، کربلا انسانیت کی عظیم درسگاہ کا نام ہے، کربلا دائمی بقا کےلئے حکم مولا پر فنا ہونے کا نام ہے، کربلا خاندان پیغمبر کی عظمتوں کی امین ہے، کربلا عشاق کی منزل ہے، کربلا اسلام حقیقی کی ابدی بقا کی مسلسل تحریک ہے، کربلا عقیدتوں کا مرکز ہے، کربلا اہل محبت کا مرکز ہے، کربلا وہ چشمہ فیض ہے جس سے ہر انسان فیضیاب ہوتا ہے۔

آج بھی عشاق کے قافلوں کا رخ اسی سمت ہے، خوش نصیب ہیں وہ جو آج وہاں ہوں گے، برہنہ سر، برہنہ پا، سیاہ پوش لبیک یاحسیںؑ، لبیک یاحسینؑ کی صدائیں دیتے ہوئے؛ انشاء اللہ ہم جیسے سیاہ کار بھی ایک دن پاکیزہ جذبات، پاکیزہ خیالات کے لوگوں کے ساتھ یہی صدا لگاتے ہوئے سوئے کربلا رواں دواں ہوں گے۔۔۔

http://islamtimes.org

ای میل کریں