ہماری سعی و عمل سے زمانہ واقف ہے کہ هم نے ظلمت شب میں دئیے جلائے ہیں
ہمارے خوں سے ہے گلرنگ کشور ایراں کہ ہم نے حد نظر تک چمن سجائے ہیں
ہمارے عزم پہ تاریخ کے ورق ہیں گواہ کہ سر جھکائے نہیں ہم نے سر کٹائے ہیں
ہمارے پاؤں کی ٹھوکر ہے رنگ سطوت کے کہاں کی حشمت دارا کدھر کی شوکت کے
گلی گلی میں لہو آگہی کا بہتا تھا ہوا و حرص کے ہر گام پر پھریرے تھے
وہ دن گئے کہ یہاں آندھیوں کا ڈیرا تھا چراغ نور لٹاتے ہوئے جھجکتے تھے
یہ اپنا حال تھا لب بستگی کے عالم میں کہاں کا ہنسنا کہ ہم کھل کے رو نہ سکتے تھے
زمانہ ایسے میں انگڑائی لیکے لہرایا میان عرصہ جاں رہبر یقیں آیا
اب اپنا عہد ہے عہد بہار کی صورت کہ ہم نے صبح گلستاں یہاں بسائی ہے
وہ مرد پیر خمینی (رح) امام ہے اپنا وہ جس نے منزل حق ہم کو پھر سجھائی ہے
وہ جس کے دم سے اندھیرا مٹا ہے یوں کہ حیات کئی ستاروں کو پہلو میں لے کے آئی ہے
انہی ستاروں سے ہم آفتاب ڈھالینگے سمندروں کی تہوں سے گہر اچھالینگے