شیعہ پر ہونے والے حملوں کو لیکر یہ پاکستان کے اندر شیعہ سنّی فرقہ وارانہ جنگ کا افسانہ خوب خوب بیان کریں گے۔
صوبہ بلوچستان، ضلع جھل مگسی، واقع عین برلب سرحد صوبہ سندھ، علاقہ فتح پور شریف، درگاہ صوفی سنّی حضرت رکھیل شاہ قادری (پیدا ہوئے 1854ء) میں تکفیری دیوبندی فاشسٹ کے ذریعے دھماکہ، ۲۰ شہید اور ۵۰ زخمی ہوئے۔
مذکوہ بالا درگاہ پر یہ دوسرا حملہ ہے، پہلا مارچ ۲۰۰۵ء میں ہوا جس میں ۳۵ افراد شہید ہوئے۔ ابتک بلوچستان میں صوفی سنّی درگاہوں پر ہوئے کل دس حملے، سب کا کھرا تکفیری دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں تک جا پہنجتا ہے مگر ہمارے پاکباز اپنے تئیں سلف کے علمبردار اور بدعت سے پاک کئی ایک لوگوں کو اور حیرت انگیز طور پر ان سے بالکل خود کو الگ بتلانے والے اور سیکولر ازم، لبرل ازم، روشن خیالی کے مدار المہام خود کو سمجھنے والے دونوں تیزابی منطق کی بارش برسانے میں بڑے ہی مشاق ہیں۔
ایک مذہب کے راستے سے صوفی درگاہوں، تصوف کی ثقافت، عاشورا کے جلوسوں اور شعار عزاداری پر حملہ کرتا ہے تو دوسرا کالی تیزابی عقلیت پسندی کی شعبدہ بازی کے ذریعے سے ان پر حملہ کرتا ہے۔
بہت مشکل بات ہے یہ کبھی صوفی درگاہوں کو نشانہ بنانے والوں کے نظریہ ساز تکفیری فاشزم کی آبیاری کرنے والے مدارس کی نشاندہی کریں جو بدقسمتی سے دیوبندی مدرسے کہلاتے ہیں، اپنے آپ کو اور وفاق المدارس میں بھی اتنی طاقت نہیں کہ ان سے اعلان برائت کرے۔ ان کے غصّے کا نشانہ کبھی سعودی فنڈنگ نہیں بنےگی۔
شیعہ پر ہونے والے حملوں کو لیکر یہ پاکستان کے اندر شیعہ سنّی فرقہ وارانہ جنگ کا افسانہ خوب خوب بیان کریں گے اور بس یہیں سے ان کے غصّے اور نفرت کا نشانہ دہشت گردی کے متاثرہ بنیں گے۔
وہ ہر سال چند گھنٹوں کےلئے راستے بند ہونے، وائرلیس نیٹ ورک کے جام ہوجانے کی شکایت کریں گے اور اس کا الزام بھی متاثرین کو دیں گے اور اعتراض بھی بس محرم و میلاد کے جلوسوں پر ہی ہوگا اور لاہور کرکٹ میچ کےلئے بند ہوں تو یہ کرکٹ کی بحالی کا جشن منائیں گے۔
اور یہی عقلیت پسند بزعم خود آزاد دانشور، عاشور و عزاداری و زیارات کے کلچر کو رد کرنے کےلئے تکفیریوں کے امام ابن تیمیہ و ابن وہاب نجدی کے اقوال لیکر آجاتے ہیں۔