اگر امت مسلمہ انسانیت کی قیادت کرنا چاہتی ہے تو اسے امت وسط ہونا چاہئے۔
اِنَّمَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِرَکُمْ تَطْهِیْرًا بس اللہ یہی چاہتا ہےکہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔ الاحزاب/33
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا پر مادیت کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں صرف لوگوں کی عملی اور اخلاقی زندگیاں ہی متاثر نہیں ہو رہیں بلکہ لوگوں کے عقائد اور افکار و نظریات تک بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ جب انسان کے فکر، عقیدہ اور نظریہ میں مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے تو اس عقیدے سے ہر وہ پہلو جس کا تعلق روحانیت اور روحانی اقدار و روایات کے ساتھ ہوتا ہے، وہ پہلو کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ شخص جدیدیت کی سوچ کا حامل بن جاتا ہے۔ یہ جدیدیت بھی تجدد پسندی کی شکل میں ہوتی ہے جس میں مادیت، جدیدیت اور لامذہبیت تینوں اکٹھی ہوتی ہیں۔ ان تینوں کا اختلاط ہماری ایمانی زندگی کو متاثر کر رہا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔
جدیدیت اور ماڈرن ہونے کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اصلاً خرابی نہیں ہے لیکن جب جدیدیت نظریہ اور عقیدہ بن جاتی ہے تو پھر اس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
جس سوچ، عقیدے اور نظریہ میں جس بھی دور میں یہ تینوں چیزیں "جدیدیت، لامذہبیت اور مادیت" اکٹھی ہوجاتی ہیں تو وہاں اعتقادی، اخلاقی اور ایمانی اعتبار سے بہت بڑا فتنہ وجود میں آتا ہے۔ آج مسلمانوں کی اعتقادی، روحانی، ایمانی، اخلاقی، عملی زندگی اس فتنے سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ مادی ضرورتوں، جدید دور کے جملہ تقاضوں اور غیر مذہبی گوشہ ہائے حیات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہماری مرکزیت ایمان، روحانیت، قرآن و سنت اور روحانی اقدار پر قائم رہنی چاہئے، اس سے اعتدال قائم ہوتا ہے۔
اسی لئے اللہ رب العزت نے امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ کو فرمایا: اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔ البقرة/ 143
اگر امت مسلمہ انسانیت کی قیادت کرنا چاہتی ہے تو اسے امت وسط ہونا چاہئے۔ اعتدال پر قائم رہنے والی ایسی امت بننا ہوگا جو اپنا توازن نہ کھوئے۔
بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت آیت اللہ العظمی روح اللہ خمینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
ہماری فریاد برائت، ایسی امت کا احتجاج ہےکہ جس کو مارنے کےلئے پورا کفر و شرک کمین لگائے ہے اور سارے تیر و کمان اور نیزوں کا نشانہ قرآن و عترت بنے ہوئے ہیں اور کہاں ممکن ہےکہ محمد مصطفیؐ کی امت، عاشور کی کوثر سے سیراب ہونے والے اور صالحین کی وراثت کا انتظار کرنے والے ذلت کی زندگی پسند کریں گے اور مغرب و مشرق کے غلام بن جائیں گے۔
صحیفہ امام، ج۲۰، ص۳۱۶