امام صادق (ع): حسين ابن علی (ع) عمرہ کی نیت سے مکہ ميں وارد ہوئے اور عمرہ بجا لائے نہ حج کے۔
چونکہ امام حسين عليہ السلام کے قيام کا مقصد، دين اور اسلامی شريعت اور پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی سنت کو احياء کرنا تھا اسی لئے آپ، نہ صرف شريعت اور اسلامی احکام کے خلاف کوئی کام انجام نہيں ديتے تھے بلکہ ظہر عاشورا اپنی جان کو خطرے ميں ڈال کر بھی ان احکام کے پابند رہے؛ تو جس وقت تمام اسلامی سرزمينوں سے مسلمان حج بجا لانے مکہ پہنچے تھے، آپ حج کے مسئلے سے کيسے لاپرواہ ہو سکتے ہيں يا اس کے خلاف عمل کرسکتے ہيں؟ خاص کر جب آپ کو خليفہ اور مسلمانوں کے پيشوا کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام لگايا گيا اور بہت سارے لوگوں کو آپ کے خلاف تيار کيا۔
اسی لئے اس مسئلے کو تاريخی دريچے سے تجزيہ کرنے سے پہلے اس کو صحيح طور پر بيان کريں کہ امام حسين عليہ السلام نے ابھی حج کا احرام نہيں پہننا تھا اور يہ جو بات مشہور ہےکہ امام نے حج کو عمرہ ميں تبديل کيا، صحيح نہيں ہے؛ کيونکہ امام عليہ السلام آٹھ ذی الحجہ "يوم الترويہ" کو مکہ سے نکلے ہيں؛ جبکہ حج کے اعمال نو ذی الحجہ کو شروع ہوتے ہيں۔
کتاب کافی شریف ميں نقل ہوا ہے:
عَنْ أَبِی عَبْدِاللَّهِ (ع)... فَإِنَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ (ع) خَرَجَ قَبْلَ التَّرْوِیَةِ بِیَوْمٍ إِلَى الْعِرَاقِ وَ قَدْ کَانَ دَخَلَ مُعْتَمِراً؛ امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں: حسين ابن علی (عليہما السلام) آٹھ ذی الحجہ سے پہلے مکہ سے نکلے ہيں جبکہ عمرہ کی نیت سے عمرہ کے احرام کے ساتھ مکہ ميں داخل ہوئے تھے اور عمرہ بجا لاچکے تھے۔
اور ايک جگہ فرماتے ہيں:
قَدِ اعْتَمَرَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ (ع) فِی ذِی الْحِجَّةِ ثُمَّ رَاحَ یَوْمَ التَّرْوِیَةِ إِلَى الْعِرَاقِ ... امام حسين عليہ السلام نے ذی الحجہ کے مہينے ميں عمرہ بجا لايا اور پھر آٹھ ذی الحجہ کو عراق کے طرف نکلے؛ اگر کوئی حج بجا لانا نہ چاہے تو وہ عمرہ بجا لاسکتا ہے۔
يہ روايتيں امام حسين عليہ السلام کا عمرہ بجا لانے کے بارے ميں بتا رہي ہيں اور حج کو عمرہ ميں تبديل کرنے کے بارے ميں کہيں اشارہ نہيں ہے۔
تاريخی نکتہ نظر سے يہ سوال اب بھی باقی ہےکہ مکہ انتخاب کرنے کی ايک وجہ يہ تھی کہ حج کے موسم ميں اپنے نظريے کو لوگوں تک پہنچانے کا اچھا موقع ہے ليکن تبليغ کےلئے بہترين فرصت اور حاجيوں کے جمع ہونے کے آخری وقت ميں اچانک کيوں مکہ کو ترک کرتے ہيں؟
اس کے جواب ميں چند ايک چيزيں ذکر کی جا سکتی ہيں:
أ) يزيد کی حکومت سے سخت ناراضگی کا اظہار
امام حسين (ع) کی شخصيت، معاشرتی حيثيت اور حج کی اہميت کے پيش نظر، امام حسين عليہ السلام کی يہ معکوس حرکت نے سب کو توجہ دلايا کہ نواسہ رسول، حاجيوں کے بہترين راہنما اور مناسک حج کی انجام دہی کےلئے شايستہ ترين فرد نے، کيوں مکہ ترک کيا؟
امام (ع) کا اس طرح سے نکلنا ظالم اور فاسد يزيد کی حکومت کے خلاف تبليغی اور معاشرتی طور پر ايک بڑا قدم تھا۔
ب) حرم کی ہتک حرمت اور امام (ع) کے قتل کی سازش
آٹھ ذی الحجہ کو امام (ع) کا مکہ سے کوفہ کی طرف حرکت کرنے نے بہت ساروں کے ذہن ميں سوال ايجاد کيا اور آپ سے اس کی وجہ دريافت کی، جن ميں سے ايک ابن عباس تھے، آپ نے ان کے جواب ميں فرمايا: "مکہ ميں قتل ہونے سے زيادہ کسی اور جگہ قتل ہونا مجھے زيادہ پسند ہے"۔
اسی طرح اپنے بھائی محمد حنفيہ کو بھی يزيد کے توسط، حرم امن الہی ميں آپ کے قتل کو واضح طور پر بيان کيا ہے۔
اگر امام عليہ السلام حرم الہی (مکہ) ميں قتل ہوتے تو حرم کی ہتک حرمت ہوجاتی، اگرچہ اس عظيم گناہ کے مرتکب اموی قاتل اور مجرم لوگ ہوتے۔