مدافعین حرم اگر نہ ہوتے تو نہ کوئی مسجد و صومعہ رہتی اور نہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا حرم اور نہ ہی کوئی مقدس مکان باقی رہتا۔
امام خمینی:"میں نے پہلے بھی بتایا ہےکہ صہیونی غاصب ریاست اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر اسلام اور مسلمانوں کےلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور انہیں مہلت دی جائے تو اس خطرے سے نمٹنے کا موقع ہاتھ سے نکل جائےگا۔ اس خطرے کا نشانہ اسلام کی اساس ہے اس لئے خاص طور سے اسلامی ممالک اور عام طور پر تمام مسلمانوں کا وظیفہ بنتا ہےکہ اس فاسد مادے کو ہر ممکن طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کریں اور مدافعین کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کی ہر طرح سے مدد کریں"۔
شام اور عراق میں انبیاء عظام (ع)، اہل بیت اطہار (ع) اور صحابہ کرام (رض) کے متعدد مزارات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے لیکن مدافعین حرم نے بر وقت اقدام کرکے اس وہابی فتنے کو آگے نہیں بڑھنے دیا ورنہ تو شاید کرہ ارض پر کوئی حرم دیکھنے کو نہ ملتا اور کوئی مزار یا اسلام کا کوئی بھی تاریخی مقام، تاریخ کا حصہ بن چکا ہوتا۔
آٹھ شوال جنت البقیع کے انہدام کے وقت مدافعین حرم نہ تھے جو حرم کو وہ ایام دیکھنے پڑے تھے اور آج بھی ان ہی وہابیوں کے سپوت عراق و شام سمیت کئی ممالک میں مشاہد مشرفہ کی مسماری کا استعماری ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں۔
شام میں امریکی، صہیونی اور یورپی سازش کے تحت جنگ شروع ہوئی تو وقت کے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون نے اس جنگ کو جہنم سے تشبیہ دی جس سے جنگ کی شدت کی مجموعی تصویر کشی ہوتی ہے۔
شیعہ نیوز رپورٹ کے مطابق، امریکیوں نے علاقے کے بعض ممالک کی مدد سے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں بیداری کی تحریکوں کا خاتمہ کرنے کےلئے لیبیا کو نیست و نابود کیا اور شام میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کی۔ ترکی، سعودی عرب، قطر، امارات، کویت اور بحرین نے اس جنگ میں امریکہ، اسرائیل اور یورپ کی پیدل فوج کا کردار ادا کیا۔
شام کی سرزمین پر تکفیریوں کی بہار آئی اور نواسی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے حرم کی مسماری کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور اتباع و اشیاع یزید کو دعوت اقدام دی گئی۔
پوری توجہات شام، عراق اور بعدازاں، یمن کی طرف مبذول ہوئیں، لیکن اسلامی مزاحمت تحریک کفر و استکبار کی سازش اور بظاہر اپنوں کی حماقت کے راستے میں آڑے آئی اور اس المیے کا راستہ روک لیا۔
شام کی شکست و ریخت کی سازش اور تکفیریوں کی طرف سے اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی صہیونیوں سعودیوں کی ہمہ جہت حمایت حاصل ہے اور اگر یہ ملک شکست و ریخت کا شکار ہوتا اور تکفیری اس پر قبضہ کرلیتے تو علاقے میں ایک عظیم تاریخی المیہ رونما ہوتا اور شام واقعی جہنم میں تبدیل ہوتا۔
حرم زینبیہ (س) کو خطرہ لاحق ہوا تو مختلف ممالک کے نوجوان مدافعین حرم کے دائرہ کار میں ایران سے شام اور عراق چلے گئے اور اس المیے کا سد باب کیا اور اگر آج وہاں کی شیعہ سنی آبادیاں محفوظ ہیں یا اگر اپنے گھر بار کو خیر باد کہنے پر مجبور کئے جانے والے شیعہ اور سنی اور عیسائی انسانوں کے اپنے گھروں کے لوٹنے کا انتظام موجود ہے اور اگر مساجد اور صوامع موجود ہیں اور اگر عبادت گزار موجود ہیں تو یہ سب یقیناً مدافعین حرم کے مرہون منت ہے جن میں کثیر تعداد میں شیعہ اور سنی نوجوان کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ سب رضاکارانہ طور پر جان کی بازی لگا کر حرث و نسل کی حفاظت کر رہے ہیں۔ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِیراً (سورہ حج، آیت 40)
آج دنیائے اسلام میں ہی نہیں، یورپی ممالک میں سب جانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ عراق اور شام کی سالمیت کا تحفظ ان کا اپنا تحفظ ہے اور یہ کہ ان کے ممالک میں بھی دہشت گردی کا مؤثر مقابلہ کرنے کےلئے مزاحمتی تحریک بالخصوص حزب اللہ جیسی طاقت کی ضرورت ہے اور اگر عراق اور شام میں دہشت گردوں کا مؤثر مقابلہ نہ کیا جائے تو تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کی سی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔
یہ مدافعین حرم کا کمال ہے جنہوں نے اس جنگ کو عالمی دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیا گو کہ دنیا بھر میں صہیونی وہابی چینلز اور وسیع ابلاغی و تشہیری ذرائع صہیونیت کے پجاریوں کے خلاف لڑنے والے ان گمنام اور مظلوم مجاہدین پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اقوام عالم ان کو خراج تحسین پیش کریں گی اور دفاع حرم میں شہید ہونے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گی اور ان کے مدفن زیارتگاہوں میں بدل جائیں گے۔
بلاشبہ اگر مدافعین حرم نہ ہوتے تو نہ کوئی مسجد و صومعہ رہتی اور نہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا حرم رہتا اور نہ ہی کوئی مقدس مکان باقی رہتا؛ اور سعودی صہیونی لابی کے ماتحت تکفیری، عراق پر بھی مسلط ہوجاتے اور ان کے ہاتھ ائمہ اطہار علیہم السلام کے حرم تک اور اپنی دیرینہ اور پلید خواہشات کی تکمیل تک بھی پہنچ جاتے۔
بظاہر مسلم اور عرب حکمرانوں کی انفعالیت اور کفر و استکبار کے سامنے ان کی ذلت و تسلیم کے رویے کے برخلاف مسلمانوں میں سے حتی ایک فرد بھی شام و لبنان میں یہودی ریاست کے ہاتھوں مزاحمت تحریک کی شکست کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر محاذ مزاحمت نہ ہو تو اس ریاست کی پیشقدمی کی کوئی انتہا نہیں ہے: وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْیَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (سورہ بقرہ، آیت 120)
اگر مدافعین حرم ہوتے تو کیا برطانوی اشارے پر سعودی وہابی مکہ، مدینہ، جدہ اور دوسرے علاقوں میں اسلام کی تاریخ اور مقدسات کو مسمار کرسکتے تھے؟