نہيں معلوم کہ روہنگيا مسلمانوں ميں سے کتنے بوڑھے اور بچے برما سے نکلتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں۔
مختلف رپورٹس کے مطابق، برما کی 55 ميلين آبادی ميں سے دو ميلين تين لاکھ پينسٹھ ہزار آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اس ملک کی کل آبادی ميں سے 87.9 فيصد بوديسٹ، 6.2 فیصد عيسائی اور 4.3 فیصد ميں سے ہندو اور ديگر علاقائی مذاہب کے لوگ جو بالترتيب 3 اور 0.8 اور 0.5 ہيں۔
برما کے قانون کے مطابق، اس ملک کے تمام نسلی، مذہبی اور لسانی لوگوں کو برابر کے حقوق ملنے چاہيے۔
اس ملک کی سپريم کورٹ نے اعلان کيا ہے: " آج کل اس ملک کے مختلف علاقوں ميں کچھ ايسے لوگ بھی پائے جاتے ہيں جو دوسروں سے بالکل مختلف ہيں؛ ليکن شہری قانون کے مطابق، وہ برما کے شہری شمار ہوتے ہيں"۔
فارسی، عربی، يورپی اور چينی تاريخ کے اسناد کے مطابق، ساتويں صدی عيسوی کو مسلمان برما ميں وارد ہوچکے ہيں اور نويں صدی ميں برما کی پہلی بادشاہت کے وجود ميں آنے سے پہلے 1055 کو رخائن ميں پہنچے ہيں۔
سب سے پہلے مسلمان " آراکان " ميں بسے ہيں اور اس کے بعد "مائون گدائو" کی طرف گئے ہيں جہاں آج کل روہنگيايی مسلمان اقليت، برما کی حکومت کے حملوں کی زد ميں ہے۔
مسلمانوں کی برما کے اس علاقے ميں آنے کے بارے ميں تاريخی اسناد کے علاوہ بعض تاريخی آثار قديمہ جيسے موجودہ رخائن صوبے ميں کچھ ايسے سکّے ملی ہيں جو مسلمانوں کی اس ملک ميں بسنے کی قديم تاريخ کی گواہی ديتی ہيں۔
مختلف شواہد کے مطابق، يہ کہا جاسکتا ہےکہ برما کے مسلمانوں کی موجودہ آبادی عرب، ايرانی، ترک، ہندی، پاکستانی، چينی اور ملايو کی نسل سے ہيں جو صدياں اس ملک ميں بسنے کی وجہ سے مقامی دوسری نسليں جيسے رخائن، شان، کران اور مون جيسی قوموں سے شادياں کرکے زندگی بسر کرتے رہے ہيں۔
1826 کو مسلمانوں نے "يانگون" ميں پہلی مسجد کی بنياد ڈالی ليکن 26 سال کے بعد انگريزوں نے يانگون پر حملے کے دوران اس مسجد کو مسمار کرديا۔
برطانيہ کے تسلط کے دور سے پہلے کے برما پر اگر ايک نگاہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ اس وقت مسلمانوں کو بڑا مقام حاصل تھا جيسا کہ گزشتہ صديوں ميں مسلمان، بادشاہ کے مشير، اہم بندرگاہوں کے انچارج، شہر کے ناظم اور ڈاکٹر کی اہم پوسٹوں پر رہ چکے ہيں۔
"سایا گی یو نو" (1762-1822) کے دوران حکومت میں "یامار واتی"، "یو کان گی" (1870-1960) شہر کے ناظم، " بادشاہ " سے وزير کا عنوان حاصل کرنے ميں کامياب ہوگئے تھے اور "سلطان محمود" جو "يونو حکومت" ميں اس ملک کا وزير صحت رہا ہے۔ يہ لوگ برما کی تاريخ کے مشہور مسلمان تھے۔
"يو نو حکومت" جو برما ميں پہلا وزير اعظم بنا اور برما کے 1947 کے آئين کے مطابق 1962 تک اس ملک ميں حکومت کی؛ آخرکار، ايک مارشل لاء کے تحت، معزول ہوگئی۔
در حقيقت اس ملک کی آزادی کے دن سے آج تک، برما حکومت نے روہنگيايی مسلمانوں کے اس بہانے سے کہ وہ بيرونی مہاجر ہيں اور بنگلہ ديش سے اس ملک ميں آئے ہيں؛ ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھا ہے اور انہی بہانوں کے سہارے دنيا کی سب سے بڑی اقليت کو سرکوب کرنے ميں اپنے آپ کو مجاز سمجھتے ہيں۔
حوالہ: www.entekhab.ir/fa