برما حادثات اور امام خمینی کا عالمی نظریہ

برما حادثات اور امام خمینی کا عالمی نظریہ

صلح و مدارا اور انسانيت کے مروج؛ امام خمينی برحق اور مظلوم ہيں يا محترمہ سوچی جو ميڈيا کے اسير اذہان کی ہيرو ہيں؟

صلح و مدارا اور انسانيت کے مروج؛ امام خمينی برحق اور مظلوم ہيں يا محترمہ سوچی جو ميڈيا کے اسير اذہان کی ہيرو ہيں؟

روہنگيا مسلمانوں کی نسل کشی، امام خمينی کے الہی نظرئے سے ايک بے رحم پيپلسٹ عورت تک

برما (ميانمار) ميں روہنگيا مسلمانوں کی نسل کشی نے ہر حق طلب شخص کے ذہن کو حيران اور آنکھ کو اشکبار کيا ہے۔

روہنگيايی لوگ کئی صديوں سے برما ميں رہتے ہيں ليکن آج ان کا گناہ صرف يہی ہےکہ وہ نسلی اور ثقافتی اعتبار سے برما کے دوسرے لوگوں کے ساتھ يکساں نہيں ہيں۔

ہم ديکھتے ہیں کہ آج کے جدید اور بظاہر متمدن دنیا میں، انسانوں کی رواداری اور کرامت انسانی کا کلچر، بہت سے معاملات میں صرف ایک سیاسی نعرہ اور وسيلہ بنا ہے اور اقدار بھی بعض اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے دور کے جاہلی بدوؤں کی اقدار جيسے ہوتے ہیں۔

آنگ سان سوچی جو انيس سو نوے کی دہائی کے آخر ميں برما کے فوجی حکمرانوں کے ساتھ سياسی اختلافات کی وجہ سے گھر ميں نظر بند رہی اور اس نظر بندی کی طويل مدت ميں شدت پسندی کے خلاف ايک افسانوی شخصيت اور قديس سے پہچانوائی گئی تھی اور نوبل امن انعام بھی حاصل کی تھی اور ان کی حالت کو تبديل کرنے ميں بہت سی کوششیں کی گئی، اور رہائی کے بعد بھی بہت قدر کی گئی ليکن برما ميں حاليہ خوفناک روہنگیا نسل کشی، نقل مکانی اور بے گھر ہونے پر، محترمہ کا موقف نہايت قابل تامل اور تشويش ہے۔

سوچی کے ملک ميں آج جب اکيسويں صدی ميں اس کے بعض ہم وطنوں کو بدترين وحشيانہ نسل کشی اور آوارگی کا سامنا ہے ايسے عالم ميں وہ خاموش تماشائی بنی ہے اور ان کےلئے کوئی کام نہيں کر رہی بلکہ اشارے کنايوں ميں تائيد بھی کرتی ہے۔

کيا انسانوں کے آپس ميں کوئی امتیازی فرق ہے؟ یا محترمه سوچی اور ان لوگوں کی آئيڈيالوجی ميں جنہوں نے اپنے ميڈيا کے بل بوتے پر اسے ايشياء کا منڈلا بنا ديا ہے؛ "صلح و مدارا و محبت" انسانوں ميں سے کسی خاص گروہ کے ساتھ مختص ہے؟

آئيے چند سال پيچھے چلتے ہيں جہاں 1979 کو ايران ميں ايک شيعہ بزرگ عالم نے بيسويں صدی ميں، آخری اور سب سے بڑے کلاسيکی انقلاب کی رہبری کرکے اسے کاميابی سے ہمکنار کياـ

امام خمينی نے خالص شيعہ تفکر سے اس دور ميں ايک الہی انقلاب کو کامياب بنا ديا جب مشرق ميں کميونيزم اور مادّہ پَرَستی اور مغرب ميں کپيٹليزم کا دور دورہ تھا۔

امام خمينی کا تفکر، کلام الہی سے سرچشمہ ليتا ہےـ ھيئومن رائٹس کے مدعيوں نے آپ کی زندگی ميں اور وفات کے بعد بھی اپنی ميڈيا کی طاقت کے بل بوتے پر آپ کی شخصيت کو تخريب يا تحريف کرنے ميں تمام تر توانائياں صرف کيں تاکہ آپ کو انسانی حقوق کے مبانی کے خلاف ايک بنياد پرست رہنما کے طور پر پيش کريں ليکن خود آپ کے اس قول کے مطابق " اللہ تعالی نے ہمارے دشمنوں کو بےوقوف قرار ديا ہے" آج ان سازش کاروں کی رسوائی سے پردہ چاک ہوگيا ہے اور امام خمينی کی شخصيت روز بروز نورانی ہوتي جا رہی ہے۔

آيئے ايران ميں اقليتوں کے ساتھ امام خمينی کے گفتار اور کردار پر ايک نظر دوڑائيں:

"يہ لوگ (يہودی) جو ايران ميں ہيں ان کو کوئی تنگ نہيں کرسکتا، نہ يہوديوں کو اور نہ ہی نصاری کو ـ يہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کی امان ميں ہيں ـ وہ لوگ جن کا رسمی مذہب ہے، ان ميں سے کسی کو بھی تنگ کرنے کا حق نہيں ہے۔ (صحیفه امام، ج5، ص251)

"ايران ميں تمام مذہبی اقليتيں اپنے دينی اور سماجی آداب کو انجام دينے ميں آزاد ہيں اور اسلامی حکومت اپنا فرض سمجھتی ہےکہ وہ ان کے حقوق اور امنيت کا دفاع کرے اور وہ لوگ بھی ديگر ايران کے مسلمانوں کی طرح، ايرانی اور قابل احترام ہيں"۔ (صحیفه امام، ج4، ص441)

اب پروپيگنڈہ کرنے والی دشمن ميڈيا سے پوچھا جا سکتا ہےکہ:

صلح و مدارا اور انسانيت کے مروج؛ امام خمينی برحق اور مظلوم ہيں يا محترمہ سوچی جو ميڈيا کے اسير اذہان کی ہيرو ہيں؟

ای میل کریں