امام خمینی(رح): جان لو کہ روحانی سفر اور ایمانی معراج کےلئے طرق معرفت کی طرف رہنمائی کرنے والوں اور راہ ہدایت کے چراغوں کے روحانی مقام سے تمسک ضروری ہے۔
"مباہلہ" یعنی دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔
شیخ مفید نے مباہلہ کو فتح مکہ کے بعد اور حجۃ الوداع سے پہلے (یعنی سنہ 9 ہجری قمری) قرار دیا ہے اور فرمایا: نصارٰی کے ساتھ رسول خدا (ص) اور عیسائیوں کے درمیان واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ (سنہ 631 عیسوی) کو رونما ہوا۔
اور شیخ انصاری کا کہنا ہےکہ مشہور یہی ہےکہ واقعۂ مباہلہ 24 ذوالحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔
جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے یہ ہےکہ یہ واقعہ رسول اکرم (ص) اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہوا ہے۔
آیت مباہلہ سورہ آل عمران کی اکسٹھویں آیت ہے جو واقعۂ مباہلہ کی طرف اشارہ کرتی ہے:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق، اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
سورہ آل عمران آیت 61۔
شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہےکہ یہ آیت رسول اکرم (ص) کے ساتھ نجران کے نصارٰی کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ کیونکہ نصارٰی (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی(ع) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے؛ وہ عیسی (ع) کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے؛ حتی کہ آپ (ص) نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔
اہل سنت کے مفسرین (زمخشری، فخر رازی، بیضاوی اور دیگر علماء) نے کہا ہےکہ " أَبْنَاءنَا " [ہمارے بیٹوں] سے مراد حسن اور حسین ہیں اور "نِسَاءنَا" سے مراد فاطمہ زہراء اور "أَنفُسَنَا" [ہمارے نفس اور ہماری جانوں] سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت (ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء علیہم السلام کو تشکیل دیتے ہیں اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد، ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کےلئے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً
اللہ کا ارادہ بس یہی ہےکہ ہر طرح کی ناپاکی کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
سورہ احزاب آیت 33۔
نصارائے نجران نے رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا تو خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہوکر، مباہلہ کرنے کےلئے تیار نہيں ہوئے اور آپ (ص) کے ساتھ صلح کرلی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرت (ص) نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی
بالفاظ دیگر، عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خدا (ص) مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہوکر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔
امام خمینی علیہ الرحمہ امامت اور انسان کامل، ص۲۶۷ پر، انوار عصمت اطہار علیہم السلام کے مقام و عظمت اور قرب الہی کے متعلق فرماتے ہیں:
جان لو کہ یہ روحانی سفر اور ایمانی معراج ان ٹوٹے پھوٹے اور بے لگام پیروں، اس بے بصیرت آنکھ اور اس بے نور دل کے ساتھ طے نہیں ہوسکتا " وَمَنْ لَمْ یَجْعَلِ ﷲُ لَہُ نُوراً فَمٰا لَہُ مِنْ نُور " پس اس روحانی راستے پر چلنے اور اس عرفانی معراج کی طرف پرواز کرنے کےلئے طرق معرفت کی طرف رہنمائی کرنے والوں اور راہ ہدایت کے چراغوں کے روحانی مقام سے تمسک ضروری ہے، کیونکہ وہ ﷲ تک پہنچے ہوئے اور ﷲ میں کھوئے ہوئے ہیں۔
اگر کوئی خودسر ان کی ولایت سے تمسک کئے بغیر اس راستے کو طے کرنا چاہے تو اس کا یہ سفر شیطان اور جہنم کی طرف ہوگا۔
امامت اور انسان کامل، ص۲۶۷
التماس دعا