سلام و علیک السلام کے بعد، چیزیں دےکر واپس گیا
جی پلاس: آج عید سعید کے موقع پر مجھے ایام جوانی یاد آئی جو سنہ ۱۳۳۵ھ، شمسی تک جا ملتی ہے؛ والد محترم دنیا سے رخصت کرگئے تھے اور ہم چند چھوٹے چھوٹے بچے، عالم یتیمی میں امی جان کی پر مشقت محنتوں کے سہارے دن گزارتے تھے۔
وہ نان شب کی اور سامان آرامش و آسائش نیز دیگر روزمرہ ضروریات کے حصول کےلئے سخت کوشاں تھی لیکن بچوں کے لباس نو فراہم کرنے میں عاجز رہتی تھی، اس لئے یہ نامراد حالت امی جان کے دل پر درد خنجر بن چکی تھی کہ اس طرح کبھی بھی اپنے پیارے بچوں کےلئے دیگر بچوں کی مانند خوشی اور عید کے ایام میں لباس نو خرید نہیں سکتی ہے۔
ایام گزرتے ہوئے موسم بہار کو قریب پہنچا؛ ایک دن غروب کے وقت دروازے کی دستک کی صدا بلند ہوئی، حاج آقا روح اللہ کی طرف سے کوئی شخص کچھ چیزوں کے ساتھ دروازے پر نظر آئے۔
سلام و علیک السلام کے بعد، چیزیں حوالہ کرکے واپس چلے گئے۔
خوشی میں سب آگے بڑھے، امی نے پیک کھول کر خاموش رہ گئی، خوشی میں آنکھیں تر ہوچکی تھیں؛ ہم سب کےلئے نیز امی جان کےلئے عید کا لباس بھیجا گیا تھا۔
اس مبارک عید کے دن، محلے کے دیگر بچوں کی طرح ہم بھی لباس نو زیب تن کئیں؛ یہ منظر دیکھ کر امی جان کے ہونٹوں پر خوشی کی مسکراہٹ نمایاں ہوئی اور حاج آقا روح اللہ کے حق میں دست بدعا بلند کی۔
ماخذ: کتاب زندگی نامه امام خمینی بر اساس اسناد و خاطرات و خیال، ج۱.