فریضہ حج، مصیبتوں کی شفا بخش دوا

فریضہ حج، مصیبتوں کی شفا بخش دوا

رہبر انقلاب اسلامی: مسلمان " اَشِّدآءُ عَلَی الکُفّار" اور " رُحَمآءُ بَینَهُم" کو بھول چکے ہیں؛ فلسطین کی نجات سے غافل ہوکر، خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے اور افغان و پاکستان میں دہشت گردی میں سرگرم ہیں۔

حجاج بیت اللہ الحرام کےلئے رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا پیغام

رہبر انقلاب اسلامی: مسلمان " اَشِّدآءُ عَلَی الکُفّار" اور " رُحَمآءُ بَینَهُم" کو بھول چکے ہیں؛ فلسطین کی نجات سے غافل ہوکر، خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے اور افغان و پاکستان میں دہشت گردی میں سرگرم ہیں۔

 

بسم ﷲ‌ الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمدللہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد خاتم النّبیّین و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین

اللہ تعالی کا شکر ہےکہ امسال بھی ساری دنیا کے مومنوں کے ایک خیل کثیر کو اس نے حج کی سعادت عطا فرمائی تاکہ وہ اس فیض و برکت کے شیرین سرچشمہ سے مستفیض ہوسکیں۔ ان دنوں اور راتوں کی یہ با برکت و بے بہا گھڑیاں، ایک معجزہ گر اکسیر کی مانند دلوں کو منقلب اور جانوں کو پاکیزگی اور نورانیت میں ڈھال دیتی ہیں۔ سب مومنین، خداوند عالم کے باعظمت گھر کے سائے میں میقات عبادت و خشوع و خضوع و ذکر و تقرّب کی توفیق حاصل کریں۔

حج، ایک راز و رموز سے پر عبادت ہے اور بیت شریف، ایک ایسی جگہ ہے جو برکات الہی و مظہر آیات و بیّنات حضرت حق تعالی ہے۔ حج، ایک بندۂ مومن اور اہل خشوع و تدّبر کو مقامات معنوی و روحانی عطا کرسکتا ہے اور اس کی شخصیت سے ایک عظیم و نورانی انسان کو وجود میں لاسکتا ہے؛ اسی طرح اس کے ذریعے ایک با بصیرت عنصر و شجاع و فعّال و مجاہدت والا فرد بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ اس بے نظیر فریضے میں ہر دو طرف کے عناصر بلا شبہہ برجستہ و نمایاں ہیں یعنی معنوی و سیاسی اور فردی و اجتماعی اور آج کے مسلمان معاشرے کو ان دونوں پہلوؤں کی اشد ضرورت ہے۔

ایک جانب سے، مادہ پرستی کا جادو پیشرفتہ مشینوں اور آلات کی مدد سے، گویا ہر ایک کو یرغمال بنا کر تباہ کئے جا رہا ہے اور دوسری جانب نظام استبداد کی سیاست، مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی کرکے اور شعلوں کو ہوا دے کر مسلم ممالک کو بدامنی اور اختلافات کا جہنم  بنائے ہوئے ہے۔ لہذا فریضہ حج، امّت اسلامیہ کی ان دونوں عظیم مصیبتوں کے تدارک کےلئے ایک شفا بخش دوا ثابت ہوسکتا ہے؛ یہ دلوں کے زنگ بھی دھو سکتا ہے اور نور تقوی و معرفت سے انہیں منّور بھی کرسکتا ہے، اس کے علاوہ یہ آنکھوں کو کھول سکتا ہے تاکہ وہ دنیائے اسلام کی تلخ حقیقتوں کو دیکھ سکیں اور ان خرابیوں سے سخت مقابلہ کرنے کا اس طرح عزم کریں کہ ان کے قدم استوار اور ان کے جسم و ذہن میدان عمل میں آنے پر آمادہ ہو جائیں۔

آج دنیائے اسلام بدامنی کا شکار ہے؛ اخلاقی و معنوی بدامنی اور سیاسی بد امنی۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری غفلت اور دشمنوں کے بے رحمانہ حملے ہیں۔ ہم نے نابکار دشمن کے حملوں کے مقابل اپنے دینی و عقلی فریضے پر عمل نہیں کیا؛ ہم " اَشِّدآءُ عَلَی الکُفّار" کو بھی بھول گئے اور " رُحَمآءُ بَینَهُم" کو بھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہےکہ صیہونی دشمن جہان اسلام کے قلب میں فتنے برپا کر رہا ہے اور ہم فلسطین کی یقینی نجات سے غافل ہوکر، شام، عراق، یمن، لیبیا اور بحرین کی خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے اور افغانستان و پاکستان میں دہشت گردی و غیرہ میں سرگرم ہیں۔

اسلامی ملکوں کے سربراہوں اور اسلامی دنیا کے سیاسی، دینی و ثقافتی ماہرین کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں اور فرائض ہیں:

اتحاد پیدا کرنے، لوگوں کو قومی و مذہبی جھگڑوں سے دور رکھنے، ملّتوں کو سامراج اور صیہونیوں کی دشمنی اور خیانت کے طریقوں سے آگاہ کرنے کا فریضہ، نرم اور سخت جنگ کے میدانوں میں دشمن سے مقابلے کےلئے تمام لوگوں کو مسلّح کرنے کا فریضہ، اسلامی ملکوں کے درمیان جاری اندوہناک حادثات کی فوری روک تھام کا فریضہ، جس کے تلخ  نمونوں میں سے ایک یمن میں رونما ہونے والے حادثات ہیں جو پوری دنیا میں افسوس اور اعتراض کا موضوع بنے ہوئے ہیں؛ ظلم و ستم سے دوچار مسلم اقلیتوں کے سنجیدہ اور بھرپور دفاع کا فریضہ، جیسے میانمار کے مظلوم مسلمان و غیرہ اور سب سے بڑھ کر فلسطین کا دفاع اور اس قوم و ملت کے ساتھ تعاون اور اس کا ساتھ دینا جو تقریباً ستّر سال سے اپنے غصب شدہ ملک کےلئے لڑ رہی ہے۔ یہ سب وہ اہم فرائض ہیں جو ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ قوموں کو چاہیۓ کہ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں اور دانشوروں کو چاہیۓ کہ وہ عزم محکم اور نیّت خالص کے ساتھ اس کو جامۂ عمل پنہانے کی بھرپور کوشش کریں۔

یہ سارے کام دین خدا کی نصرت و مدد کا حقیقی نمونہ ہیں اور وعدۂ الہی کے مطابق خدا کی مدد شامل حال رہےگی۔

یہ سب حج سے حاصل ہونے والے سبق کا ایک حصّہ ہے اور مجھے امید ہےکہ ہم اسے سمجھیں گے اور اس پر عمل کرینگے۔

آپ سب کےلئے ایک مقبول حج کی دعا کرتا ہوں اور منی اور مسجد الحرام کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خداوند رحیم و کریم سے ان کے درجات کی مزید بلندی کا طالب ہوں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ

سیّد علی خامنہ ای

ہفتم شہریور 1396

ہفتم ذی الحجہ 1438

31 اگست 2017

ای میل کریں