سید حسین موسویان نے ایران کے موقف سے دفاع کرتے ہوئے کہا:
امریکہ اور یورپ نے صدام کےلئے کیمیکل ہتھیاروں کی ساخت اور استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کی۔
۱/۔ گزشتہ چند دنوں میں علاقے میں کئی تلخ انسانی واقعات رونما ہوئے۔ کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال سے تقریباً ستر بیگناہ سوری شہری مارے گئے اور اس کانفرنس میں سب نے صرف اسی ہی کے بارے میں گفتگو کی۔ ایک اور تلخ حادثہ داعش کی جنایت تھی، چنانچہ ایک علاقہ میں تینتیس اور دوسرے علاقہ میں بارہ جوانوں کا گلہ کاٹا گیا؛ لیکن کسی نے بھی اس نشست میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ تیسرا تلخ حادثہ موصل میں دو سو بیگناہ عراقی شہریوں کا امریکہ کی فوجی جہازوں کے حملوں سے قتل عام ہونا تھا، لیکن اس کھلا عام جرم و جنایت کے بارے میں بھی کسی نے بھی اس نشست میں کوئی بات نہیں کی!!
یقیناً بےگناہ شہریوں کے مارے جانے کے خلاف کوئی اقدام کرنا چاہیئے، لیکن انتخابی اور من پسند شکل میں نہیں؛ کسی بھی حکومت کے ذریعے شہریوں کا قتل ہونا، قابل شدید مذمت اور سخت احتجاج ہونا چاہیئے، امریکہ ہو یا سوریہ، ٹروریسٹ ہو یا عربستان۔
۲/۔ امریکہ اور یورپ کےلئے کیمیکل ہتیاروں کا استعمال کوئی مسئلہ نہیں، کیوںکہ:
پہلی بات: صدام نے ایران پر اپنے تجاوز کے دوران کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا جس سے ایک لاکھ ایرانی بےگناہ شہری قتل عام اور زخمی ہوئے جبکہ امریکہ اور یورپ نے صدام کےلئے کیمیکل ہتھیاروں کی ساخت اور استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی فراہم کی۔ عالمی جنگ کے بعد ایران کیمیکل ہتھیاروں کی سب سے بڑی قربانی ہے، اسی لئے کیمیکل ہتھیاروں سے بے زار اور اس کی سخت مذمت کرتا ہے۔
دوسری بات: امریکہ اور نیٹو نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے بھانے عراق اور لیبی پر حملہ کیا اور ان ملکوں کے قائدین کو سرنگون کیا اور بعد میں دنیا کے سامنے بالکل واضح ہوگیا کہ وہاں کوئی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے اور یہ صرف ایک کھلا جھوٹ تھا۔
تیسری بات: جب بھی سوریہ میں کیمیکل ہتھیار استعمال ہوتا ہے، ہر قسم کی تحقیق سے پہلے، ایک منٹ بعد فوراً امریکہ اور یورپ، اسد کی حکومت کو اس جنایت کا عامل ٹھہراتے ہیں! جو اس بات کی دلیل ہےکہ امریکہ اور یورپ کو داعش اور القاعدہ پر بہت اعتماد ہے۔
۳/۔ امریکہ اور یورپ کا مسئلہ سوریہ میں، ڈکٹیڑ نظام کا مقابلہ اور ڈیموکرسی کی برقراری بھی نہیں، کیوںکہ گزشتہ پچاس، ساٹ سالوں میں، مشرق وسطی میں امریکہ کی سیاست کی بنیاد ہمیشہ سے ڈکٹیڑ حکومتوں جیسے شاہ ایران، حسنی مبارک اور علاقہ میں موجود ڈکٹیروں کی چشم بستہ حمایتیں رہیں ہیں۔
۴/۔ امریکہ اور مغرب والوں کی سوریہ میں مشکل، انسانی مسائل اور انسانی حقوق بھی نہیں کیوںکہ اربوں ڈالر کی جدید ہتھیار سعودی عرب کو فروخت کرتا ہے، جہاں حقوق بشر زیرو ہے اور یہ ہتھیار یمن کے بےگناہ انسانوں کے قتل عام کےلئے استعمال ہوتے ہیں۔
۵/۔ امریکہ کا اصلی مسئلہ، مشرق وسطی پر مکمل کنٹرول اور اسرائیل کے قبضے کو ہر صورت میں استحکام بخشنے کی کوشش ہے۔ لیبی اور عراق کی حکومت کو گرانا، افغانستان پر فوجی حملے اور اب سوریہ میں بھی اسی پالیسی کو استعمال کرنا چاہتا ہے کیوںکہ اسد، اسرائیل کے مقابلہ میں، محاذ جنگ کی پہلی صف میں کھڑا ہے۔
۶/۔ ایران کےلئے بنیادی مسئلہ، ایرانی نظام کا تختہ الٹنے کی امریکی سیاست کا مقابلہ کرنا ہے اور مشرق وسطی کی سطح پر پھیلا ہوا ٹروریزم اور تکفیری دہشتگردوں سے مقابلہ اور مزاحمت ہے۔
اگر غور کریں، تمام تکفیری گروہوں چاہے القاعدہ، داعش، جبھۃ النصرہ اور بوکوحرام کی آئیدیالوجی کا سرچشمہ، وھابیت اور سعودی عرب ہے؛ امریکہ بھی اس حقیقت سے بےخوبی آگاہ ہے۔
نیویورک ٹائمز نے ایک محرمانہ سند منتشر کیا جس میں امریکہ کا موجودہ وزیر خارجہ ہیلاری کلینٹن نے سعودی عرب کو ٹروریسٹ کی بنیادی جڑ اور حامی کہا ہے۔
سابق صدر اوباما نے " اٹلانٹک " میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے تصریح کی کہ گزشتہ چند عشروں میں سعودیہ نے اربوں ڈالر، انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ دہشتگری کےلئے خرچ کیا ہے۔
نئے امریکی صدر کے نائب " جو بائیڈن " نے روارد یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے تصریح کی کہ امریکہ کے علاقائی متحدین، اسد حکومت گرانے کےلئے ٹروریسٹوں کو مالی امداد اور ہتھیار دیتے تھے۔
ٹرامپ نے بھی اپنے انتخاباتی دور میں باقاعدہ کہا کہ ٹروریزم کی اصلی جڑ سعودی عرب ہے۔
ایرانی حکومت بھی اسی مطلب کا قائل ہے، اسی لئے علاقے میں جاری محاذ جنگ کی پہلی صف میں داعش کے ساتھ لڑ رہی یے اور اب تک سینکڑوں ایرانی فوج، عراق اور سوریہ میں جان بحق ہوئے ہیں۔
۷/۔ ایران اور روس ہم دونوں، دو موضوع پر عقیدت رکھتے ہیں؛ پہلا، ٹروریزم کے ساتھ مقابلہ اور مزاحمت؛ دوسرا، طاقت کے زور پر موجودہ نظام کا تختہ الٹنے کی امریکی سیاست کے ساتھ مقابلہ۔
اسی طرح جناب موسویان نے سوری مخالفین کے جھوٹے دعؤوں کا جواب دیتے ہوئے کہا:
جب مخالفین کی بات ہوتی ہے تو اس حقیقت کو بےخوبی جاننا ضروری ہےکہ سوریہ کے چالیس فیصد علاقے داعش کے اختیار میں اور بیس فیصد دیگر علاقے ٹروریسٹی گروہ جیسے القاعدہ، جبہۃ النصرہ کے پاس ہے؛ یعنی آپ کی سرزمین کی مٹی کا ساٹ فیصد دہشتگردوں کے ہاتھ ہے۔
کانفرنس میں حاضر اعلی تعلیم حاصل کردہ اور بڑی شخصیات، آپ حضرات مزید اور کتنی امریکہ اور یورپ کی کانفرنسوں میں شرکت کریں گے؟ کیا اصلی محاذ جنگ کے میدانوں میں، آپ کا کوئی کردار بھی ہے؟ کوئی کردار نہ ہوتے ہوئے اس قدر بے اساس دعوی بھی کرتے ہیں!!!
آپ لوگوں کو چاہیئے کہ اسد حکومت کے ساتھ متحد ہوجائیں اور سب پہلے اپنی سرزمین کو دہشتگردوں کے ناپاک وجود سے پاک اور آزاد کرائیں اور پھر ایک دوسرے کے تعاون اور ہمکاری سے، اقوام متحدہ کی زیر نظر ملک میں ایک آزاد انتخابات کرائیں اور عوام کی رائے اور ووٹ کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔
و السلام
ماخذ: http://www.khabaronline.ir