وینسنس نامی امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے سے دو میزائل داغے گئے جس کی وجہ سے جہاز میں سوار ۲۹۰ بچے، عورتیں اور مرد شہید ہوگئے۔
صدام کو ملنے والی بهرپور امداد تیزی کے ساتھ لشکر اسلام کے حق میں جاری محاذ جنگ کے حالات تبدیل نہ کرسکیں، عراق کی طرف سے رہائشی علاقوں پر بمباری اور میزائیلوں سے حملے کے دور عروج میں امریکہ نے براہ راست مداخلت کی، اسی کے ساتھ فرانس، برطانیہ، امریکہ اور روس کے جنگی بیڑے خلیج فارس سمندر میں داخل ہوگئے۔
امریکہ سمجهتا تها کہ جنگ کے بحران کو عالمی شکل دیتے ہوئے دوسرے ممالک کو براہ راست اس میں ملوث کرنا واحد اور آخری راہ حل ہے، اس نظریئے کو عملی شکل دینے کےلئے آئیل ٹینکروں کی جنگ کا آغاز کیا گیا، علاقے میں بهیجی گئی ان فورسز کی ذمہ داری ایرانی تیل کی برآمد کو روکنا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیادی ضروری اشیاء کی درآمد بند کرنے کےلئے تجارتی جہازوں کی تلاشی لینا تهی، اس دوران ایران کے متعدد تجارتی جہازوں اور آئیل ٹینکروں پر میزائیلوں سے حملہ کیا گیا انہیں فضائی بمباری کا نشانہ بنایا گیا اور خلیج فارس کے ساحلی پانیوں میں واقع ایران کے تیل کے کنوئیں کو آگ لگا دی گئی۔
ان جارحانہ کارروائیون کا تسلسل جاری رکهتے ہوئے آخر میں امریکہ ایک ہولناک جرم کا مرتکب ہوا، ۳ جون ۱۹۸۸ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک مسافر ائیر بس طیارے، پرواز نمبر ۶۵۵ کے دوران خلیج فارس کے فضا میں وینسنس نامی امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے سے دو میزائل داغے گئے جس کی وجہ سے جہاز میں سوار ۲۹۰ بچے، عورتیں اور مرد شہید ہوگئے۔
حق سے بیگانہ، زور و جبر کی دنیا نے اس سانحے پر آنکهیں بند کرلیں، کیونکہ سانحے کی بهینٹ چڑهنے والے اسلام کے نام لیوا تهے اور اسلام کا نام لینا مہذب مغربیوں کی نگاہ میں ناقابل معافی جرم سمجها جاتا ہے۔
ادهر صدام نے بهی مسلط کردہ جنگ میں اپنے سیاہ نامہ اعمال کو اس سے بهی زیادہ ہولناک جرم کے ساتھ بند کیا جس کی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، عراقی شہر حلبچہ پر کیمائی ہتهیاروں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں پانچ ہزار شہری کربناک حالت میں دم گهٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے جن کی اکثریت بچوں اور ضعیف العمر افراد پر مشتمل تهی۔
اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے اس سانحے پر بهی احساس ذمہ داری کا اظہار نہیں کیا!!
خلیج فارس میں مغربی طاقتوں کی یلغار اور آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کے آخری مہینوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی اصل وجہ، جنگ میں لشکر اسلام کی برتری کے علاوہ یہ امر بهی تها کہ اسلامی افواج کا اثر مقبوضہ علاقوں سے دشمن کو اپنی سرحدوں کے اندر دهکیل کر علاقے سے فتنے کی جڑوں کو اکهاڑ پهینکنے والی تهیں، مجاہدین اسلام کے ہاتهوں صدام کی شکست، اسلامی انقلاب کے مقابلے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی شکست کی صدائے بازگشت تهی، اب پہلے کے برعکس امریکہ اور سلامتی کونسل کی تمامتر کوششیں ایرانی مجاہدوں کی پیشرفت کا راستہ روکنے اور صدام کو سرنگونی سے بچانے پر مرکوز تهیں، جبکہ مشیت الہی اور عزم امام خمینی اور امت امام نے تمام اسلام دشمن سازشوں کو مٹی میں ملا کر چھوڑ دیا؛ والحمدللہ علی ما عز و نصر۔