عید کے دن علی الصبح " ﷲ اکبر، لاالہ الا ﷲ وﷲ اکبر، وﷲ الحمد " کہتے ہوئے سب عیدگاہ کیطرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ فضائیں تحمید و تکبیر کی روح پرور صداؤں سے گونجتی سنائی دیتی ہیں۔
انسان ابتدا ہی سے خوشیوں کا متلاشی رہا ہے اور مسرت کا حصول انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ کچھ خوشیاں انفرادی ہوتی ہیں جن میں فرد اور اس سے متعلق چند اشخاص شریک ہوتے ہیں اور کچھ خوشیاں اجتماعی ہوتی ہیں جن میں کسی مذہب یا علاقے سے وابستہ افراد شریک ہوتے ہیں۔ خوشی کی ایسی تقریبات کے ایام جس میں کسی قوم کے افراد اجتماعی طور پر شریک ہوں اور انہیں مذہبی و ثقافتی حیثیت سے اپنا لیں، اس قوم کا تہوار قرار پاتے ہیں۔
اسلام فطری دین اور ضابطۂ حیات ہے اور فرد و معاشرے، دونوں کی اصلاح و فلاح کا ذمہ دار بھی، اس نے ملتِ اسلامیہ کو دو ایسے اسلامی تہواروں اور دینی جشنوں سے سرفراز کیا ہے جو فرزندانِ اسلام کی روحانی بالیدگی، انفرادی مسرت اور اجتماعی شوکت کا مظہر ہیں۔ ان میں سے ایک تہوار کا نام " عید الفطر " ہے۔
ظہور اسلام اور ہجرت النبی کے بعد، رسول اللہ (ص) نے اہل مدینہ کو سال میں دو دن جشن مناتے دیکھا۔ آپ (ص) نے دریافت فرمایا: یہ دو دن کیسے ہیں؟
اہل مدینہ نے بتایا: یہ دو دن ہماری خوشی کے دن ہیں؛ ہم ان دنوں میں کھیل کود کرتے ہیں۔
رسالتمآب (ص) نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم کو "یوم الاضحٰی" اور "یوم الفطر" کے دو دن عطا فرمائے ہیں جو تمہارے کھیلنے کودنے اور ان جاہلیت کی خوشی کے دنوں سے بہتر ہیں۔
اس طرح حضرت نے اپنے اس فرمان سے عہدِ جاہلیت کی یادگار تقریباب و رسومات کا یکسر قلمع قمع فرما کر اہل مدینہ و تمام مسلمانوں کو "عیدین سعیدین" دو بابرکت عیدوں کا تحفہ عطا فرمایا۔
عید کا معنی ہے لوٹنا؛ چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت اور برکت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں، اس لیے اس روز سعید کو " عید " کہتے ہیں۔
فطر یعنی تجدید؛ اسی لئے صبح ناشتا کو فطور کہتے ہیں۔ نیز ماہ صیام میں سحری سے غروب تک امساک کے بعد، روزہ پورا کرکے روزہ دار بھوک پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے۔ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو اسلامی برادری کے ان افراد کو بھی صدقۃ الفطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۃ الفطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو " عید الفطر " کہتے ہیں۔ یہ تہوار اسلام کے مزاج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اس تہوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی اور عبادت الٰہی سے دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔
عید کے دن علی الصبح اٹھ کر بلند آواز سے تکبیریں پڑھے: " ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، لاالہ الا ﷲ وﷲ اکبر، ﷲ اکبر وﷲ الحمد " بوڑھے بچے، جوان سب عید گاہ کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ ہر جگہ مسلمان مرد و زن بشاشت سے پیشانیاں عید کی مسرت سے منور لیے نظر آتے ہیں۔ فضائیں تحمید و تقدیس اور تکبیر و تہلیل کی روح پرور صداؤں سے گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ نماز عید کےلیے مسلمانوں کے اجتماعات ملک و دینی شوکت کے نئے ولولے پیدا کرتے دلنواز مناظر، کا باعث بنتے ہیں۔
یوم عید، خداوند ذوالجلال کی ذات بابرکات کے شایانِ شان دن ہے۔ اس دن تمام بندگانِ الٰہی وہ حاکم ہوں یا محکوم، امیر ہوں یا غریب، سب کے سب اس کے عاجز بندے اور فانی مخلوق ہیں۔
تہوار عید ہے مناؤ تم بھی عید
بھلا کر سارے غم گاؤ خوشی کے گیت
ہو مبارک عالم اسلام کو یہ عید سعید
بن دیکھے اسے یارب یہ عید نہ گزرے
کر پیدا کوئی سبب یہ عید نہ گزرے
دنیا کو دکھایا ہے اک چاند جو تو نے
مجھ کو بھی دکھا دے اب یہ عید نہ گزرے