خمینی سید احمد: امام خمینی (رح) کی ممتاز خصوصیت خود سازی اور صرف اللہ تعالی ہی کےلئے کام کرنا، نیز خلق خدا سے صداقت کے ساتھ گفتگو کرنا، تھی۔
امام خمینی (رح) کی ذمہ داری، سوچ اور جدوجہد نیز جو کام انجام دیتے تھے وہ صرف خدا ہی کےلئے ہوتے تھے، اسی لئے آپ فرماتے تھے: "اگر قتل کر دئے جائیں تو بھی کامیاب ہیں اور اگر قتل کر بھی دیں تو بھی کامیاب ہیں ہم" اگر ہمیں پوری دنیا ایسی دے دیں کہ جس میں تصور خدا نہ ہو تو وہ دن ہماری شکست کا دن ہوگا۔
[وزارت داخلہ کے عہدیداروں سے خطاب/ ۲۸-۱۰-۱۳۶۸]
اس وقت ہم امام خمینی (رح) کے مزار پر حاضر ہیں۔ امام خمینی (رح) کی ایک خصوصیت خود سازی تھی، یعنی جب آپ (رح) بحمدللہ انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے اور آپ (رح) نے اس نظام کی قیادت کو سنبھالا تو عنقریب ۲۰ سال خود سازی میں گزار چکے تھے۔ امام خمینی (رح) اپنی سب سے پہلی کتاب عرفان و اخلاق کے بارے تالیف فرمائی۔
[حضرت امام (رح) نے جوانی کے آغاز سے تحریری امور میں فعالیت شروع کی اور کتاب "مصباح الہدایہ الی الخلافہ والولایہ" کو ۲۷ برس کی عمر میں اور "شرح دعائے سحر" کو ۲۹ برس کی عمر میں تحریر کرکے زیور طبع میں آراستہ کیا]۔
امام خمینی (رح) کا مقام بہت ہی اعلی ہے جبکہ اس دنیا میں بھی پاکیزگی اور اخلاص کی وجہ سے امام (رح) کا مرتبہ ایسا تھا کہ جب بھی کوئی بات کہتے تھے تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ میرے خیال میں امام خمینی (رح) کی یہ عظمت ان کی مرجعیّت کی وجہ سے نہ تھی اور نہ تو یہ اثر و رسوخ اس وجہ سے تھا کہ امام (رح) ایک طاقتور سیاسی لیڈر تھے؛ اس لئے کہ دنیا میں سیاسی لیڈر تو بہت ہیں اور ہم نے مراجع اور فقیہ بھی بہت سے دیکھے ہیں لیکن وہ چیز جو کہ امام (رح) میں ایک نرالی حیثیت سے نظر آتی تھی وہ ان کا خلوص اور نفس کی پاکیزگی تھی اور وہ ایسی چیز تھی جو آپ (رح) کی تقریر کے دوران تمام سامعین نیز ان لوگوں کو چاہے جو بلا واسطہ آپ (رح) کی تقریر سنتے تھے یا ریڈیو اور ٹی وی سے سب کے افکار اور شعور نیز ان کے قلب میں ایک نئی روح بن کر سما جاتی تھی اور وہ لوگ امام خمینی (رح) ہی کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے۔
جو لوگ امام خمینی (رح) کی پیروی کرتے تھے اور شاہراہوں پر نکل آتے تھے اور جو شہید ہوئے ہیں، جیلیں کاٹیں ہیں اذیتیں اٹھائی ہیں، درست ہےکہ معاشرتی حالات کی وجہ سے یہ تمام جدوجہد وجود میں آئی لیکن یہ جو ہم ایرانیوں کے اندر خدا کے علاوہ کسی سے بھی نہ ڈرنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے، بے شک خمینی (رح) کے خلوص کلام کا مرہون منت ہے۔
امام اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے دوست جماران کے ہسپتال میں اکٹھے ہوچکے تھے اور بے قراری سے لحظہ شماری کر رہے تھے کہ کس وقت امام صحت یاب ہوں گے کہ اچانک ڈاکٹر نے مجھے آواز دی اور کہا: " ناگوار حادثہ واقع ہوچکا ہے"۔
ان لحظات میں سب سے پہلا فیصلہ جو کیا گیا وہ مختلف شہروں سے مجلس خبرگان کے اراکین کو تہران میں جمع کرنا تھا اور وہ دور و نزدیک سے تہران پہنچ گئے۔
حضرت امام کی رحلت کے بعد لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر اس طرح نکل چکے تھے کہ اس انقلاب کے دشمنوں کی امیدوں زیر پا روند ڈالا۔
مجلس خبرگان کا واقعی اور تقدیر ساز فوری فیصلہ، اس طرح سے آپس میں جمع ہوئے کہ گویا خدائے متعال نے ہماری ملت پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دئے ہیں، کیونکہ اتنا اہم واقعہ رونما ہوچکا تھا، لیکن اس کے باوجود ایک ادنیٰ سا مسئلہ بھی پیش نہیں آیا جو اسلامی جمہوری ایران کے نظام کےلئے خدشہ کا باعث ہو۔
[اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے عملے سے خطاب/ ۱۳/۱/۱۳۷۱]
وَسَلَامٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا