ضیاء الحق: امام خمینی سے مل کر نئی طاقت ملتی ہے، امام خمینی کی شخصیت بہت ہی ممتاز تھی۔
اعجاز الحق سابق صدر مملکت جنرل ضیاءالحق کے فرزند، ضیاءالحق کے حادثے کے بعد سیاست میں آگئے، اعجاز الحق پرویز مشرف دور میں وفاقی وزیر مذہبی و اقلیتی امور رہے، اس سے قبل نواز شریف کی حکومت میں وزیر محنت و افرادی قوت رہے، اپنے والد کے حادثے کی تحقیقات کیلئے انہوں نے ہر فورم پر آواز اٹھائی، مرزا اسلم بیگ نے اس انکوائری کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ ملکی سیاسی صورتحال اور دیگر موضوعات پر اعجاز الحق سے ایک مختصر گفتگو، قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔
اعجاز الحق: جنرل ضیاءالحق اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبدالرحمان بہاولپور میں ایم آئی اے ون ٹینک کا مظاہرہ دیکھنے نہیں جانا چاہتے تھے، لیکن اس وقت کے جی او سی ملتان جنرل درانی جو صدر ضیاء کے ملٹری سیکرٹری بھی رہ چکے تھے، انہوں نے بہت اصرار کیا اور انہوں نے ہی ضیاء الحق کو وہاں جانے پر مجبور کیا۔ اسی طرح آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر امتیاز نے راتوں رات جنرل اختر عبدالرحمان کو یہ کہہ کر کہ جنرل ضیاء کہیں جنرل اسلم بیگ کو آرمی چیف نہ بنا دیں، اس لئے آپ کا ساتھ جانا بہت ضروری ہے اور انہیں بھی ساتھ جانے پر مجبور کر دیا۔
تحقیقات کا آغاز بندیال کمیشن سے سے ہوا، لیکن رپورٹ تو درکنار کریمینل انکوائری بھی نہیں کرائی گئی۔ بہت سی اندرونی و بیرونی قوتوں نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔
آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی طرف سوالیہ نشان اٹھتے ہیں، امریکہ کے بریگیڈیئر جنرل واسم کے علاوہ کسی کا پوسٹمارٹم نہیں ہوا۔ جن ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کرنا تھا ان کے فوری تبادلے کر دیئے گئے۔ پاکستان اور امریکہ کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوا کہ یہ حادثہ نہیں تھا بلکہ طیارہ گرایا گیا تھا۔
طیارہ کو تباہ کرنے کیلئے 3 طریقے استعمال ہوئے۔ نمبر 1، اعصابی گیس استعمال کی گئی جس کے سبب پائلٹ مفلوج ہوگئے اور گیس ایک اسرائیلی ایجنٹ کے ذریعے پاکستان لائی تھی؛ دوئم، جہاز کے عقبی حصے میں رکھی گئی آموں کی پیٹیوں کے اندر دھماکہ خیز مواد رکھا گیا؛ سوئم، گروپ کیپٹن اظہر زیدی نے شفیع الرحمان کمیشن رپورٹ کے سامنے انکشاف کیا تھا جہاز کے عقبی حصے پر میزائل بھی مارا گیا تھا۔
نامہ نگار: تو آپکے والد کے "قتل" میں امریکہ اور اسرائیل ملوث تھے؟
اعجاز الحق: جی بالکل، اس تمام سازش میں بھارتی سفارتکار، امریکی سفارتکار اور فضائیہ کے چند سابق افسران شامل تھے۔ اسلم بیگ نے سارے ثبوت آئی ایس آئی سے لے کر اپنی تحویل میں رکھ لئے اور پھر انکوائری بھی رکوا دی۔
نامہ نگار: لوگ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار آپکے والد کو ٹھہراتے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں؟
اعجاز الحق: یہ خالصتاً ایک قتل کا مقدمہ تھا، اس کا میرے والد سے کیا تعلق، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی عدالت نے دی، لیکن پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عدلیہ کا مذاق اڑایا۔
نامہ نگار: دہشتگردی کا بیج تو آپکے والد نے بویا، اور آج قوم اس فصل کو کاٹ رہی ہے؟
اعجاز الحق: دہشتگردی کا آغاز بھٹو دور میں ہی ہوگیا تھا، "الذو الفقار" کو پیپلز پارٹی سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی اور دہشتگردی کی بنیاد رکھی گئی۔ الذو الفقار نے شام اور افغانستان میں تربیت لی، پاکستان کے اندر دھماکے، جہاز اغوا کرکے دوسرے ملک میں لے جانا ان کا کام تھا؛ جبکہ ضیاء کا 11 سالہ دور سنہری دور تھا۔ پاکستان کو امت مسلمہ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
نامہ نگار: یہ بھی کہا جاتا ہےکہ علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کروانے میں ضیاء الحق براہ راست ملوث تھے؟
اعجاز الحق: دیکھیں جی، جب کوئی بندہ اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کے دور میں ہونیوالا ہر اقدام اسی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے علامہ حسینی کو جب شہید کیا گیا تو حالات کچھ اس طرح کے بن چکے تھے کہ سارا ملبہ میرے والد پر ڈال دیا گیا، حالانکہ میرے والد امام خمینی کے بہترین دوست تھے، وہ اکثر ہمیں بھی ذکر کرتے تھے کہ امام خمینی سے مل کر انہیں نئی طاقت ملتی ہے، وہ امام خمینی کی شخصیت سے بہت متاثر تھے اور اسی وجہ سے وہ علامہ حسینی کا بھی احترام کرتے تھے۔ وہ اہل تشیع کو پاکستان کی اہم قوت سمجتھے تھے، آپ کو یاد ہوگا، جب مفتی جعفر کی قیادت میں اہل تشیع نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور سیکرٹریٹ پر قبضہ کر لیا تو ضیاء الحق نے ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔ وہ اہل تشیع کو احترام دیتے تھے، لیکن کچھ بیرونی قوتوں کو یہ پسند نہیں تھا، یہی وجہ ہےکہ ایک منصوبہ بندی سے علامہ حسینی کو شہید کروا دیا گیا اور اس کا ملبہ میرے والد کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ علامہ حسینی کو امریکہ نے اس لئے قتل کرایا کہ وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی پاکستان میں ترویج کر رہے تھے۔ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں ایرانی انقلاب کے اثرات پہنچیں۔ اس حوالے سے ایک عرب ملک کو بھی امریکہ نے استعمال کیا اور پاکستان میں دہشتگردی کروائی گئی۔