امام خمینی کےکلام میں مناجات شعبانیہ کی عظمت

امام خمینی کےکلام میں مناجات شعبانیہ کی عظمت

امام خمینی: ہمیں خدا سے دعا کرنے کی ضرورت ہےکہ توفیق حاصل ہو کہ ان مبارک مہینوں میں عرفانی معارف کی ادنیٰ جھلک ہمارے دلوں میں بھی پڑجائے۔

امام خمینی: ہمیں خدا سے دعا کرنے کی ضرورت ہےکہ توفیق حاصل ہو کہ ان مبارک مہینوں میں عرفانی معارف کی ادنیٰ جھلک ہمارے دلوں میں بھی پڑجائے۔

جماران کے مطابق، 20 مارچ 1989کو حضرت امام خمینی نے اپنے ایک خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای، ہاشمی رفسنجانی، موسوی اردبیلی، میرحسین، یوسف صانعی، موسوی تبریزی اور ظهیرنژاد کی موجود گی میں، ماہ رجب، ماہ شعبان اور رمضان المبارک کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: رجب، شعبان اور رمضان کے مہینوں کی برکتیں ایسے انسانوں کی شامل حال رہی ہیں جو ان مہینوں کی برکتوں سے مستفیض ہونے کی اہلیت رکھتے تھے اور ان تمام برکتوں کا آغاز عید مبعث سے ہی ہوتا ہے۔

رجب کے مبارک مہینے میں عید سعید مبعث کے ساتھ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اور بعض دیگر  ائمہ کی ولادت کے ایام ہیں اور ماہ شعبان میں حضرت امام حسین علیہ السلام نیز حجت خدا امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کے ایام واقع  ہیں اور ماہ رمضان المبارک میں، پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ کے قلب مبارک پر قرآن نازل ہوا۔ ان تین مہینوں کی عظمت اور شرافت کو کسی بیان میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عقل انسانی اس کا ادراک کرسکتی ہے۔

ان تین مہینوں کی برکتوں میں سے ایک، وہ ماثورہ دعائیں ہیں جو ان مہینوں میں وارد ہوئی ہیں۔ ماہ شعبان کی مناسبتوں میں سے ایک " مناجات شعبانیہ " ہے جس کا شمار بہت بڑی مناجات اور عظیم الہی معارف میں ہوتا ہے اور جو لوگ اہلیت رکھتے ہیں، وہ اپنی بساط کے مطابق اس مہینے کی عظیم برکتوں سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں...

رجب، شعبان اور رمضان المبارک کے مہینوں کی برکتیں ایسے انسانوں کی شامل حال رہی ہیں جو مستفیض ہونے کی اہلیت رکھتے تھے اور ان تمام برکتوں کا آغاز عید مبعث سے ہی ہوتا ہے۔

بہت سے عرفانی مسائل جو قرآن اور مناجات شعبانیہ جیسے اہل بیت علیہم السلام کی ماثور دعاوں اور مناجات میں پائے جاتے ہیں، کسی حد تک ممکن ہےکہ فلاسفر اور عرفا سمیت عام لوگ ان کے عناوین سے واقف ہوں تاہم ان کے اندر عرفانی ذوق کے فقدان سے انہیں صحیح طرح مسائل کی گہرائی تک رسائی ممکن نہیں۔

اس عظیم مناجات کے بعض جملے ایسے مسائل پر مشتمل ہیں جو بظاہر آسان لگتے ہیں لیکن حقیقت میں ان تک  رسائی ممکن نہیں...

یہ اسی دعا ہے جس کے بارے میں منقول ہےکہ ائمہ طاہرین علیہم السلام میں سے ہر ایک اس کی تلاوت کیا کرتے تھے، یہ اس کی عظمت کی دلیل ہے، یہ کیسی دعا ہے؟ خدا اور ان کے درمیان کونسے مسائل تھے؟ هَبْ لِی کَمالَ الاْنْقِطاعِ اِلَیْکَ کمال انقطاع سے مراد کیا ہے؟...

ہمیں خدا سے دعا کرنے کی ضرورت ہےکہ توفیق حاصل ہو کہ ان مبارک مہینوں میں عرفانی معارف کی ادنیٰ جھلک ہمارے دلوں میں بھی پڑجائے تاکہ ہمیں اس بات پر ایمان حاصل ہوجائے کہ « صَعِقَ »  کیسا قضیہ ہے؟ ہمیں اس بات پر ایمان حاصل ہوجائے کہ انسان کا اپنے خالق کے ساتھ راز و نیاز کا مطلب کیا اور کیسے ہوسکتا ہے؟ ہمیں مناجات کا انکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس پر ایمان رکھنا چاہئے، کیونکہ یہ سارے مسائل قرآن میں بھی موجود ہیں اور قرآن کے بعد ائمہ طاہرین علیہم السلام سے ماثور دعاوں کی کتابوں کے مجموعے میں لطیف انداز میں پائے جاتے ہیں اور جن لوگوں نے ان اصطلاحات کو بروئے کار لایا ہے چاہئے سمجھ کر یا انجانے میں، سبھی نے قرآن اور حدیث سے استفادہ کیا ہے... البتہ ان مسائل کو روحانی ذائقے سے لمس کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ ان کی حقیقت تک بھی بہت کم لوگوں کی رسائی ممکن ہے، ذوق روحانی سے ان مسائل کا صحیح طرح لمس کرنا ان تمام مسائل سے بالاتر ہے۔

http://www.jamaran.ir

ای میل کریں