اسلامی ایران ہر دم، غاصب اسرائیل کےخلاف

اسلامی ایران ہر دم، غاصب اسرائیل کےخلاف

قائد اعظم: دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دےگا۔

قائد اعظم: دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دےگا۔

ایران اسرائیل کے خلاف نبرد آزما فلسطینی تنظیموں کی مسلسل حمایت کرتا چلا آ رہا ہے اور اس نے 1979ء میں شاہ کے دور میں قائم کئے گئے سفارتی تعلقات کو ختم کر دیا تھا اور اسرائیلی سفارتخانے کی عمارت اس دور میں یاسر عرفات کے تنظیم کے سپرد کر دی تھی۔ تب سے آج تک ایران اپنے اس موقف پر قائم چلا آ رہا ہے۔

برسہا برس پہلے امام خمینی نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا تو انھوں نے اس مسئلے کو حکومتوں کی گرفت سے نکال کر عوام سے جوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ ہےکہ وہ یوم القدس کو "یوم اللہ، یوم اسلام اور یوم مستضعفین" کہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک دن آئےگا، جب مستضعف عوام یہ جان لیں گے کہ اس خطے میں اسرائیل کا قیام خطے کے عوام کے وسائل لوٹنے کےلئے ایک عالمی سامراجی سازش کی حیثیت رکھتا ہے۔

جمعۃ الوداع اس لحاظ سے عجیب ہوگا کہ دنیا کے مستضعف عوام صہیونی ظلم و بربریت اور عالمی استعماری سازش کے خلاف یوم القدس منا رہے ہوں گے اور صہیونی میڈیا کے زیر اثر عالمی نقارے بج رہے ہوں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہےکہ امت مسلمہ اور پاکستانی مسلم قوم کو کیا کرنا چاہیے؟

ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ جب عوام کے قائد اعظم کے سامنے یہ مسئلہ آیا تھا تو انھوں نے جو جرأت مندانہ موقف اختیار کیا تھا، پاکستان کے عوام کا آج بھی وہی موقف ہے اور یقینا امت مسلمہ کا بھی ایسا ہی موقف ہونا چاہئے۔

پاکستان کے بننے کے بعد 1947ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم "ڈیوڈ بن گورین" نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایا جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا:

"دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دےگا۔ مجھے توقع ہےکہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہےکہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوؤں کے خلاف پہلے ہی 5 لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انھیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔ 

 

اسلام ٹائمز؛ ثاقب اکبر

ای میل کریں