امام خمینی نظم اور قانون کی ایجاد کےلئے بڑی کوششیں کرتے تھے۔
جس گھڑی امام، بہشت زہراء(س) آ رہے تھے ان لمحات کی تشریح کریں، شکریہ!
تین حلقے بنائے گئے تھے تاکہ سانس لینے کےلئے کچھ ماحول بنایا جائے۔ ہمیں مسلسل خبر مل رہی تھی کہ امام راستے میں ہیں۔ دوسری طرف، ارتباطی سیسٹم آج کی طرح نہیں تھی، کچھ لوگ اپنے جاننے والوں کو فون کرتے تھے اور اس طرح ہمیں خبروں اور حالات سے آگاہ کرتے تھے۔ بالآخر ہم نے سنا کہ امام بھاری ٹریفیک میں پھنس گئے ہیں اور سیدھا یہاں نہیں آ سکتے ہیں اور دوسرے طریقے سے امام کو بہشت زہراء (س) پہنچانا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ ہیلی کاپٹر آسمان میں نظر آیا۔ ہر طرف لوگ کی بھیڑ تھی اور ہیلی کاپٹر جایگاہ نشست کے قریب نہیں ہوسکتا تھا۔ طے پایا کہ تھوڑی سی گنجایش بنائی جائے ۔ حفاظتی فورسز نے جگہ نکالی اور بالآخر ہیلی کاپٹر اسٹیچ سے تقریبا ساٹ ستر میڑ دور بیٹھ گیا۔ جناب اْقائے ناطق نوری پہلا جانا پہنچانا چہرہ تھے جو میں نے وہاں دیکھا۔ میرا تعارف اْقا ناطق سے انقلاب سے پہلے تھا۔
کیا مجموعی طور آپ کی نظر میں انقلاب کا برتاؤ تشدد پر مبنی تھا؟
میری نظر میں دیگر تمام انقلابوں کے مقابلے میں، انقلاب اسلامی کا برتاؤ تشدد اور انتہا پسندی نہیں تھا۔ دیگر ممالک میں جب کوئی انقلاب آتا ہے اور حکومت تبدیل ہوتی ہے؛ خون کی ندی جاری ہوتی ہے۔ خود امام کی تحریک تشدد پسند نہیں تھی۔ امام، شاہ کی حکومت کے دوران ٹارگیٹ کلین کے حق میں نہیں تھے۔ سنہ ۴۰ اور۵۰ (1961 ۔ 1971) کی عشروں میں اس کے خلاف تھے۔ امام بنیادی طور پر اس روش اور راہ کے مخالف تھے اور اگر غور کیا جائے تو تقریباً سنہ ۵۴ (1975) میں ٹارگیٹ کلین کا نظریہ بند گلی میں پھنس گیا، یعنی دو اصلی گروہوں مجاہدین خلق اور گوریلا کمانڈوں کی مسلحانہ جنگ کی اسٹراٹیجی کی شکست کی بحث، بنیادی موضوع کے عنوان سے پیش کی جانے لگی اور تقریباً اس کے بعد، امام کی سیرت اور نظریہ جو اجتماعی ریلیاں اور اعلان مخالفت پر مبنی تھا، نے غلبہ پایا۔
امام کا تشدد اختیار کرنے کی طرف لگاؤ اور رجحان پیدا ہونے کے خلاف رد عمل کیا تھا اور فضا کو آرام کرنے کے سلسلہ میں آپ کی تدبیر کیا تھی؟
ہم ہمیشہ یہ سنتے تھے کہ امام کی کوشش ہےکہ پھانسیاں کم دی جائیں، لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کا سامنا ایک ایسی سوسائٹی سے ہےکہ سڑکوں میں جو اقدامات ہوتے ان سے امام کی روح بھی بے خبر تھی۔ بہت سے واقعات، قانونی اور حکومتی مراکز میں نہیں ہوئے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کئی مہینوں تک ہمارے پاس ایک مضبوط حکومتی ڈھانچہ نہیں تھا۔
جناب مہندس بازرگان کے شکوؤں میں سے ایک یہ تھا کہ اس مسئلہ کا کنٹرول بالکل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔
وہ صحیح کہتے تھے؛ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے سے ہمارے پاس کوئی منظم ادارہ نہیں تھا کہ جو امور کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے۔ حکومتی ادارے تھے، لیکن عملی طورپر کام ان کے ہاتھ میں نہیں تھے۔
اور اس دور میں، امام نظم اور قانون کی ایجاد کےلئے بڑی کوششیں کرتے تھے ...
امام خمینی، بازرگان کو حکومتی اداروں کو نظم و نسق دینے اور ریفرنڈم کرانے اور اسمبلی کی تشکیل کے بعد آئین بنانے پر مأمور کرچکے تھے۔ تمام امور کا انہی حالات و شرائط کے پیش نظر جائزہ لینا چاہیئے۔ اس وقت تجربہ کار اور افرادی قوتیں ہمارے پاس نہیں تھیں۔ اس انتظامی ڈھانچے میں، سب سے تجربہ کار اور دفتری کام کاج کا تجربہ رکھنے والا واحد شخص مرحوم مہندس بازرگان تھے۔ خود ہمارے لئے حکومتی ادارے میں ایسے واقعات پیش آئیں ہیں جن کو سن کر آپ سب ہماری ناپختگی اور ناتجربکاری پر ہنسیں گے۔
ان حالات میں حضرت امام کی تاکید، قانون کی سمت جانے اور انتخابات منعقد کرنے کے سلسلہ میں کس قدر قابل مشاہدہ تھی؟
اس قدر جلوہ گر اور عیاں تھی کہ امام کے کچھ افراد اس سے سخت ناراض ہوتے تھے۔ ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ ملک کو کچھ سال تک بغیر کسی قانون و نظم اور اصلی انقلابی گروہ کے نظریات کی بنیاد پر چلایا جائے، پھر قانون کی سمت جانا چاہیئے۔ اس کے خلاف امام کی پہلی تاکید، ریفرنڈم کرانے کی تھی تاکہ باقاعدہ عوام حکومت کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرے۔ پھر ایک آئین پاس ہو جو بعض پیچیدگیوں اور خامیوں کے باوجود، ملکی آئین و قانون کے مطابق حکومت چلایا جائے۔ یہ سب امام کی شدید تاکیدوں کی بنا پر تھیں اور امام کے اردگرد جمع بہت سے افراد، اس کے حق میں نہیں تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ کچھ مدت تک ملک کو اپنے خود ساختہ نظم کے تحت چلائیں اور فرصت ملنے کی صورت میں نظم و نظام اور قانون کے پیچھے جائیں۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ