حکومتوں کی کمزوری نے عوام میں بہت سے جذبات، درست اور نادرست، کو جنم دی ہے۔
وزیر امور خارجہ نے امریکا کی زیادہ تر سرگرمیوں کا مرکز " مغربی ایشیا " عنوان کیا اور کہا: امریکا والے اب یہ باور رکھتے ہیں کہ علاقے کے نظم اور حالات پر " مغربی ایشیا " دیگر علاقوں کی نسبت سب سے زیادہ تأثیر گزار ہے؛ جو کھیل آپ سب نے دیکھا، انتہائی بے شخصیت خاتون علاقے میں آتی ہیں اور کہتی ہیں: " ہم آب کےلئے امن اور نظم ایجاد کریں گے"!! یہ لوگ کب علاقے میں نظم اور امن ایجاد کرسکیں ہیں؟!
جماران کے مطابق، محمد جواد ظریف نے تہران، سلامتی کونسل میں عبوری دور کی حالات کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اظہار کیا: اس عبوری دور کا امتیازی فرق یہ ہےکہ اس میں مغرب محور نہیں، اب تک بین الاقوامی نظام کی تمام تبدیلیاں مغرب میں رونما ہوتیں تھیں، لیکن آج اس سے کہیں آگے تغییرات واقع ہو رہے ہیں۔
انھوں نے دوسرے حصہ میں کہا: دو عالمی طاقت میں بھٹی ہوئی دنیا میں جمہوری اسلامی کی موجود طاقت اور تاثیر، اس سے پہلے ناممکن تھا، لیکن ہم نے استقلال طلبی، خود مختاری جیسی عظیم طاقت سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔
جناب ظریف نے مغربی ایشیا کی حالات کی تشریح کرتے ہوئے کہا: علاقے میں قابل اعتماد نظم و قانون کا فقدان ایک واضح و عیاں بات ہے، لیکن افسوس کے ساتھ اندرونی اور دیسی فکر کا فقدان بھی اپنی ناقابل انکار ہے۔ البتہ اب ایک اور کھیل کھیلا جا رہا ہے اور وہ علاقے سے باہر والوں کا نظم اور قانون کا ہم پر لگاؤ کرنا ہے۔
ظریف نے کہا: علاقے کے بیشتر حصوں میں حکومتیں عوام کی بنیادی خواہشات اور مطالبات کو تأمین کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور عوام کے پاس حکومتوں سے اپنے بنیادی حقوق اور مطالبات تقاضا کرنے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ حکومتوں کی اس کمزوری نے عوام میں بہت سے جذبات درست اور نادرست، کو جنم دی ہے منجملہ دہشت گری اور انتہا پسندی ہے۔
خارجہ وزارت کے سربراہ نے علاقے میں مطلوبہ نظم و امن ایجاد کرنے کےلئے علاقے کی مشکلات پر خاص توجہ دینے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا: سب سے اہم ترین نکتہ اور مسئلہ یہ ہےکہ نظم اندرنی پیداوار ہو، نظم و قانون دیسی ہونا چاہیئے نہ یہ کہ کوئی خاتون باہر سے آئے اور وعدے دے کہ ہم آپ کےلئے امن اور نظم تأمین کریں گے اور نہ جوہری معاہدے کے بعد امریکا سے توقع رکھنی چاہیئے کہ وہ ہمیں رہا اور تنہا نہ چھوڑے۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ