فساد اور بگاڑھ سے مخالفت اور مقابلہ

فساد اور بگاڑھ سے مخالفت اور مقابلہ

امام کے کلمات میں مخالفت اور مقابلہ " فساد اور بگاڑھ " کے ساتھ ہے نہ فن و ہنر سے۔

امام کے کلمات میں مخالفت اور مقابلہ " فساد اور بگاڑھ " کے ساتھ ہے نہ فن و ہنر سے۔

جماران کے مطابق، جو کچھ امام خمینی (رح) کی گفتگو میں ثقافت اور ہنر کے بارے میں اصلی شاہراہ کے طور پر نظر آتا ہے، اسلام کے " انسان سازی " کے پہلو پر تاکید ہے اور آپ طاغوتی ثقافت و ہنر کی بنیاد و مفہوم پر شدید اعتراض کرنے کے ساتھ، اسلام کے مثبت پہلو پر بار بار تاکید کرتے تھے۔

امام خمینی کے کلمات میں ایک اور اہم اور اصل نکتہ جو نظر آتا ہے، مخالفت اور مقابلہ " فساد اور بگاڑھ " کے ساتھ ہے۔ ہنر کے میدان میں پیدا ہونے والی نئی ایجادات اور تخلیقات سے نہیں۔

اس بارے میں، آپ حسینیہ جماران کی تقریروں میں خاص اور قابل توجہ نکات بیان فرماتے ہیں:

شاہنشاہی حکومت کے دور میں سب کچھ اور خاص کر جوانوں کے افکار اور اذہان کو اس انداز سے پیچھے کی طرف دھکیل دیا گیا تھا کہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہ کہنے پر ان کا اصرار تھا کہ ہم تجدد پسند ہیں!! یقیناً ان کی نظر میں تجدد آزادی مطلق، ہر قسم کی قید و حدود سے آزاد تھا اور اس معنی کو ان کے اذہان میں اندرونی اور بیرونی غلط پروپیگنڈوں اور طرح طرح کے روزناموں نے راسخ کیا تھا کہ تجدد یعنی سب کچھ باہر والوں کی طرح ہونا چاہیئے!! گویا ان کی طرح زندگی نہ کرنے کا کوئی امکان نہیں!! چنانچہ آج اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس حالت اور سوچ کے انداز کو بدلنا چاہتے ہیں اور افکار کو اس سطح پر لے جانا چاہتے ہیں کہ صحیح راہ پر چلیں، ایک لمبے عرصے کی مجاہدت کی ضرورت ہے۔

طاغوتی نظام میں سب کچھ خاص کر ثقافت اور ہنر کے اصول و مفہوم ہی بالکل بدل چکا تھا، یعنی جو بھی شخص سینما کا نام سنتا تھا، یہ خیال کرتا تھا کہ سینما یعنی فساد اور بگاڑھ، بے اخلاقی اور ہر قسم کی اچھائی سے مخالفت کا مرکز ہے؛ یا پھر اسٹیچ شو کا کلمہ سنتے ہی انسان کے ذہن میں کوئی گندی اور بری چیز آتی تھی جس سے فساد پھیلایا جاتا ہے؛ اسی طرح اور دیگر چیزیں۔

اگر کسی کتاب میں چند انگریزی کلمہ نہ ہو، اس کتاب کو بے قدر و قیمت جانتے ہیں!! وہ چاہتے تھےکہ ہمارا پورا وجود ان کے اختیار میں ہو تاکہ وہ جو کچھ اور جیسا چاہیں کریں۔

اور کچھ لوگ " ایران کی قدیمی ثقافت " کے نام سے اسلام سے بھاگتے تھے؛ کیا صرف اس بنیاد پر کہ اسلام عرب سے اٹھا ہے، ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیئے؟!

کیا یہ وہی نسل پرستی نہیں جس کے ذریعے یورپ چاہتا ہےکہ ہمیں اپنا غلام اور آلہ کار بنائے اور عرب عجم اور ترک قوموں میں جدائی اور تفرقہ ڈالے؟!

اللہ تعالٰی نے اس ملت پر منت رکھا اور پہلوی کے شوم سایے کا خاتمہ کیا؛ امید ہےکہ ان جوانوں کی برکت، محنت اور زحمت سے انشاءاللہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹ سکیں اور ہمیں ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔

 

ماخذ: صحیفه امام، ج18، ص251

ای میل کریں