زیر نظر خبر کے مفہومی قالب اور معاشرتی صلاحیت اور حیثیت کے فرق، معاشرتی رول ادا کرنے کے ساتھ معاشرتی حیثیت کے ربط وتعلّق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم عورتوں کے معاشرتی حیثیات کے حامل ہونے کے بارے میں حضرت امام خمینی (ره) کا نظریہ پیش کرتے ہیں ۔
۱۔ روزگار کی مختلف حیثیات کا حامل ہونا:
’’یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام بس عورت کو خانہ نشین کرنے کیلئے آیا ہے۔ ہم عورت کے تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت کیوں کریں ؟ اس کی ملازمت کی مخالفت کیوں کریں ؟ کیوں عورت حکومتی کام انجام نہ دے؟ عورت کے سفر کی مخالفت کیوں کریں ؟ عورت کو مرد کی مانند ان تمام امور کی آزادی حاصل ہے۔ عورت اور مرد میں ہرگز کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں ! البتہ اسلام میں عورت پر پردہ واجب ہے‘‘۔(جایگاہ زن در اندیشہ امام خمینی ، ص85)
’’عورتیں معاشرے میں آزاد ہیں اور ان کے یونیورسٹی، دفاتر اور پارلیمنٹ میں جانے پر کوئی پابندی نہیں ‘‘۔(جایگاہ زن در اندیشہ امام خمینی ، ص85)
’’ایرانی عورتیں ہر میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ چاہے ثقافتی میدان ہو یا اقتصادی، ان میں سے بہت سی کھیتی باڑی کے عمل میں مصروف ہیں ۔ ان کی ایک بڑی تعداد صنعت میں کام کررہی ہے اور کثیر تعداد میں عورتیں ثقافت، ادب، علم اور فن کے میدانوں میں مصروف عمل ہیں ‘‘۔(جایگاہ زن در اندیشہ امام خمینی ، ص82)
۲۔ ماں کی حیثیت اپنانے کی ترغیب:
’’ماں کی گود وہ سب سے بڑا مدرسہ ہے جہاں بچہ تربیت پاتا ہے۔ بچہ جو کچھ ماں سے سنتا ہے وہ اس سے الگ ہے جو اپنے استاد سے سنتا ہے۔ بچہ استاد کی بات کی نسبت ماں کی بات بہتر طورپر سنتا ہے۔ وہ استاد یا باپ کے پاس رہنے کی نسبت ماں کی گود میں رہ کر بہتر تربیت پاتا ہے۔ یہ ایک انسانی فرض ہے، ایک الٰہی فرض ہے، ایک مقدس کام ہے۔ یہ انسان بنانا ہے‘‘۔(جایگاہ زن در اندیشہ امام خمینی ، ص123)
’’افسوس کہ غیروں نے ماں کی حیثیت ہماری نگاہوں میں گرادی اور ماؤں کو بچوں سے جدا کردیا‘‘۔(جایگاہ زن در اندیشہ امام خمینی ، ص135)
’’افسوس کہ سابقہ طاغوتی حکومت کے عہد میں ماؤں سے یہ مرتبہ چھین لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے پروپیگنڈا کیا کہ عورت کیوں بچے پالے۔ اس مقدس کام کو انہوں نے ماؤں کی نظروں میں گرادیا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مائیں بچوں سے الگ ہوجائیں ۔ بچے یتیم خانوں میں پلیں اور مائیں الگ ہو کر ان کے منظور نظر کام انجام دیں ‘‘۔(جایگاہ زن در اندیشہ امام خمینی ، ص136)