مقامی دہشتگرد، غیر انتظامی اور نمازگزار شیعوں کے خلاف مختلف حملے کرچکا ہے۔
جماران کے مطابق، ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکہا: پاکستان میں ایک اور ہولناک دہشتگردی کا واقعہ، دہشت گردوں نے خودکش جیکیٹ کے ساتھ، کویٹہ شہر میں پولیس کے مرکزی ٹریننگ سینٹر پر حملہ کیا اور چار گھنٹے مقابلہ کے بعد، خود کو اڑا دیا جس سے کم سے کم ۶۰ افراد موقع پر جا بحق ہوئے۔
دہشت گردوں کی امن و امان خراب کرنے اور غیر انتظامیہ اور عام شہریوں کا قتل عام کرنے کی توانائی، پاکستانی اعلی مقامات کو عاجز کرچکی ہے۔ سالوں سال سے دہشتگرد مختلف علاقوں اور بار بار حملے کر رہے ہیں اور انتظامیہ اہلکار، پولیس، بچوں اور بے گناہ نمازگزاروں کو نماز کی حالت میں نشانہ بناتے ہیں۔
ان بےشمار حملوں کی دلایل میں سے ایک، پاکستان میں موجود تشدد پسند گروہ ہیں۔
ایک اور دلیل، حکومت کے شدت پسندوں کے ساتھ پیچیدہ روابط ہیں۔ پاکستان کی توانا فوج، ہمسایہ ملک میں اپنے اہداف کے پیش نظر، بعض عسکری نما فورسز سے باقاعدہ استفادہ کرنے کا سابقہ رکھتی ہے۔ بہرحال، پاکستان کا ایسے عناصر کی نسلوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں جو ہمسایہ ملک، افغانستان کی ۳۰ سال سے زیادہ کی جنگ میں با قاعدہ مداخلت رکھتے تھے۔
ان حملوں کا اصل سرچشمہ کہاں ہے؟
جس وقت سوویت یونین نے سنہ ۱۹۷۹ میں افغانستان پر حملہ کیا، پاکستان، افغان مجاہدین کےلئے ایک وسیع میدان میں تبدیل ہوگیا، چنانچہ سابق روس کے سپاہیوں اور تجاوز کرنے والوں کے ساتھ، دنیا کی سرد جنگوں میں سے ایک بڑی جنگ لڑی۔
امریکا ان کی پوری حمایت کرتا تھا یہاں تک کہ ان میں سے بعض امریکا کے سابق صدر "رونالد ریگن" سے ملاقات کےلئے واشنگٹن بھی گئے۔ ریگن کے ساتھ نشست و برخاست کرنے والوں میں، ملیشیا فورسز میں "جلال الدین حقانی"، حقانی نیٹ ورک کے قائد بھی تھا جو بعد میں امریکا کے ذریعے دہشتگرد سے معروف ہوا اور اس وقت افغانستان اور پاکستان میں سب سے خطرناک ترین دہشت گردوں میں ان کا نام لیا جاتا ہے۔
واشنگٹن کا متحد محمد ضیاء الحق نے "اسامہ بن لادن" جیسی دہشت گردوں کو دعوت دی۔ سوویت یونین سنہ ۱۹۸۹ پیچھے ہٹ گیا اور ان کی تعین کردہ عبوری حکومت، بھی ختم ہوئی۔
مختلف دہشتگرد گروہوں کا اڈھ
اس وقت بہت سے دہشتگرد گروہ، مختلف وجوہات کی بناپر تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں۔
ان میں بعض گروہ نے حکومت اور پاکستانی افواج کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ پاکستانی طالبان یا تحریک طالبان اور آزادی طلب گروہ جیسے جماعت الاحرار انہی گروہ میں سے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان حکومت کو گرائیں اور اپنی حکومتی ریٹ و دستور کو پورے حکومت پر لگاو کریں۔ ملیشیا فورسز اور انتظامیہ کے دباو کے نتیجہ میں تحریک طالبان کئی مخلتف گروہوں میں بٹ چکا ہے اور مختلف حملے اگرچہ چھوٹے پیمانے میں کرتا رہتا ہے۔
مقامی شدت پسند دہشتگرد گروہ، غیر انتظامی اور نماز گزار شیعوں کے خلاف مختلف حملے کرچکا ہے جبکہ وہ اسلام سے وابستہ ہیں۔ داعش کا دعوی ہےکہ پاکستان میں بھی ہیں، اگرچہ ابھی تک ان کی طاقت کی تشخیص نہیں ہوئی ہے۔
سرکاری رد عمل
پاکستانی فوج کے مکرر انکار کے باوجود، ابھی بھی فوج پر دہشتگرد گروہوں کے مقابلے میں انتخابی اقدام کرنے کا الزام ہے۔ پاکستان حکومت نے قومی سطح پر جنگ و جدال کو کنٹرول کرنے کی غرض سے منصوبہ شروع کی ہے لیکن پروگرام کے غیرمنظم ہونے پر بہت سی شکایات سامنے آئیں ہیں۔
پاکستان کی فوج نے پے در پے قبائلی علاقوں میں آپریشن کی ہے اور ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد تباہ کی ہے اور دہشت گردوں کے قائدین کو بھی ہلاک کی ہے۔ ہزاروں سپاہی ان مقابلوں میں مارے گئے ہیں، آپریشن کے نشانے پر وہ گروہ ہیں جو علی الاعلان پاکستان حکومت اور فوج کے خلاف بغاوٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔
ان کے مقابل، افغانی طالبان، حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ ان کی بہ نسبت آزادانہ طورپر سرحدی علاقوں میں رفت و آمد کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں واشنگٹن نے اربوں ڈالر، پاکستان کی مدد کی اور اسے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اپنا متحد شمار کرتا ہے، لیکن ان کی اغلب شکایت ہےکہ اسلام آباد نے افغان ملیشیا فورسز خاص طور سے حقانی نیٹ ورک سے چھٹکار حاصل کرنے کےلئے کوئی موثر اقدام نہیں کرتا۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ