امام خمینی(رح) اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی انانیت اور خودبینی کو پاوں تلے روند ڈالنا ہوگا۔
آیت الله حاج شیخ حسن صانعی، جس کا شمار امام خمینی کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے اور بہت سے معنوی کمالات، امام سے حاصل کیا ہے، نے دانشوروں اور اراک کے صوبائی حکام اور لوگوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران، خودبینی گناہ کے خلاف جد و جہد اور معنوی کمالات کے حصول کی ضرورت سے متعلق بہت سے اہم مطالب کی جانب اشارہ کیا ہے جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
آیت اللہ صانعی فرماتے ہیں:
امام خمینی کے بیانات میں "تنزل" کے عنوان سے ایک عرفانی تعبیر پائی جاتی ہے جس کی طرف قرآن کریم کی آیت " انا انزلناه " میں اشارہ ہوا ہے، اس کی حقیقت کو سمجھنے میں سبھی لوگ، مشکل کا شکار ہیں۔
امام خمینی اسی ضمن میں فرماتے ہیں:
انبیاء اور امیرالمومنین علیہم السلام کا گریہ کرنا نہ تو دنیا کےلئے تھا اور نہ ہی جدائی اور فراق میں، بلکہ ان کے گریہ کرنے کی اصل وجہ دنیا میں تنزلی تھی، اور اسی طرح سیدہ کونین حضرت زہراء علیہا السلام کا گریہ بھی اسی وجہ سے تھا، اگرچہ بظاہر آپ کے گریہ کا سبب باپ کی جدائی تھی تاہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ نے آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم پھر اپنی اصلی جگہ واپس جاؤگی؛ یعنی آخرکار "تنزلی" کی منزل سے نکل کر اصلی جگہ پہنچنا ہے۔
حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام کے بارے میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: " لَن تَرَانِي " تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے! اور دوسری جگہ اعلان ہوتا ہے: " فَسَوْفَ تَرَانِي " تم مجھے عنقریب دیکھ سکو گے!! اب سوال یہ ہوتا ہےکہ ان دونوں باتوں کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے؟
امام علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
خدا یہ بیان کرنا چاہتا ہےکہ اے موسی! جب تک تو موسی ہے مجھے نہیں دیکھ سکتے اور جب تک تمہارے اندر انانیت اور بیوی بچوں کی طرف میلان پایا جاتا ہو، اس وقت تک مجھے نہیں دیکھ سکتے، لیکن جیسے ہی یہ انانیت اور خودبینی تمہارے وجود سے مٹ جائےگی تو مجھے دیکھ سکوگے؛ اسی لئے حکم آیا کہ درخت کی طرف دیکھو! " وَلَكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ "۔
امام فرماتے ہیں:
کائنات میں موجود تمام اشیاء، الہی جلوے ہیں جو مرکز تجلی گاہ سے الگ نہیں، شریعت اسلام میں ہم نے کسی ایسے مکان کا مشاہدہ نہیں کیا جہاں علت اور معلول موجود ہو بلکہ وجود کی وادی میں اس کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے: هُوَ الْأَوَّلُ وَ الاَخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ هُوَ بِکلُّ شَىءٍ عَلِیمٌ۔
انبیائے الہی جن حقیقتوں کا مشاہدہ کرتے تھے اسے تماما بیان کرنے سے قاصر تھے۔ یہ وہی لسانی گھنڈی ہے جس کو قرآن نے « وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي » کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ امام کی شخصیت بھی بالکل اسی طرح تھی اور اپنے تمام مدرکات کو بیان کرنے سے قاصر تھے اور اس اعتبار سے امام بھی لکنت لسانی رکھتے تھے؛ اسی لئے امام کو ان کے اہلخانہ بھی پہچان نہ سکے۔ جب امام کے صاحبزادے مصطفی خمینی جو تقوی اور علمی کمالات کی بلندیوں کو پہنچے ہوئے تھے، کی شہادت واقع ہوئی تو امام نے اسے ایک الہی عطیہ سے تعبیر کیا جو ان کے سعہ صدر اور وسعت قلبی کی نشاندہی کرتی ہے۔
شہید مصطفی کے ایصال ثواب کےلئے منعقدہ فاتحہ خوانی کی مجلس میں آیت الله العظمی خوئی جیسے وقت کے مراجع اور دیگر ممتاز شخصیت موجود تھیں، عراقی صدر کے نمائندوں کی آمد پر بغرض احترام، سب کھڑی ہوجاتی ہیں، لیکن امام نہ صرف کھڑے نہیں ہوتے، بلکہ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں اور ان کے وہاں سے جاتے وقت بھی امام بدستور اپنی جگہ بیٹھے رہے۔
آیت الله مدنی جو اس صورت حال کے عینی شاہد تھے، فرماتے ہیں: " اللہ کی قسم یہ پیغمبر کا فرزند ہے جو صدام کے رعب و دندبے سے مرعوب ہوئے بغیر، فضل خدا کے امیدوار ہیں"۔
ان کے بقول، معاویہ سے جنگ کے دوران، اسلام شام پر قابض نہیں ہونا چاہتا تھا بلکہ شام میں معاویہ کی بالا دستی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح رہبر انقلاب اسلامی کا تمام ہم و غم یہ ہےکہ تکفیریوں کے ہاتھوں اسیر لوگوں کو نجات دلائی جائے۔ اگر ہم اس ملک کی تعمیر میں موثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں امام کی طرح ہونا ہوگا۔ ہمیں امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی انانیت اور خودبینی کو پاوں تلے روند ڈالنا ہوگا۔
منبع: تلخیصی از روزنامہ جمہوری اسلامی