غدیر کے دن، اسلامی حکومت کا قیام

غدیر کے دن، اسلامی حکومت کا قیام

عید غدیر کا دن، وہ دن ہے جب مرسل اعظم (ص) نے اسلامی حکومت کا نمونہ پیش کردیا ہے۔

عید غدیر کا دن، وہ دن ہے جب مرسل اعظم (ص) نے اسلامی حکومت کا نمونہ پیش کردیا ہے۔

" الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَرُوا مِنْ دينِكُمْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً "

پس حجۃ الوداع کے بعد رسول اکرم(ص) نے حکم خدا کے مطابق، غدیر خم کے میدان میں حجاج کرام کے سامنے مجمع عام میں حضرت علی(ع) کی وصایت و خلافت اور ولایت کا اعلان کرکے اپنا وعدہ بھی پورا کیا۔

خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے " علی " کے متعلق مجھ پرنازل فرمایا ہے تو اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شر سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ہمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے۔

اس کے بعد آنحضرت (ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

یٰا اٴَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰااُنزِلَ اِلَیکَ مِنْ رَبِّک [فِیْ حَقِّ عَلِیْ] وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النّٰاسِ۔ اے رسول! جو حکم تمھاری طرف [علی(ع) کے سلسلہ میں] نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور الله تمھیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھےگا “

ایھا الناس! علی(ع) سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہوجانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے، حق پر عمل کرنے والے، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں، انھیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں ہوتی۔

اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی (ع) کے بازو سے تھام کر بلند کیا اور فرمایا:

جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں، اے اللہ اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے۔“/۱

زید ابن ارقم کہتے ہیں: ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ اور زبیر مہاجرین میں سے وہ افراد تھے جنھوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکـــــباد پیش کی۔ بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا۔

شیعہ متعدد قرآنی آیات اور آنحضرت(ص) کی متعدد احادیث کی روشنی میں حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد اسلام کا پیشوا، امام و وارث بر حق اور جانشین مانتے ہیں۔

حدیث غدیر خم شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مسلمہ احادیث میں سے ہے اور ایک سو سے زیادہ اصحاب نے اسناد اور مختلف عبارت کے ساتھ نقل کیا ہے۔

اس طرح متعدد آیات اور روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے اپنا جانشین، وصی اور خلیفہ، خود اپنی حیات طیبہ ہی میں معین ومقرر فرمایا ہے؛ آپ کا ارشاد ہے: "لکل نبی وصی و وارث، وان علیا وصی و وارثی" ہر نبی کا ایک وارث اور جانشین ہے اورمیرا وصی اور وارث علی بن ابی طالب ہے۔/۲

امام خمینی(رح) عید غدیر خم کے بارے میں فرماتے ہیں:

عید غدیر کا دن، وہ دن ہے جب مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ نے حکومت کی ذمہ دار معین و مشخص فرمائی ہے اور آخر تک کےلئے اسلامی حکومت کا نمونہ پیش کردیا ہے ...

ہم سب کا شرعی فریضہ ہےکہ یہ حکومتیں جو اقتدار میں آتی رہی ہیں اور الٰہی آئین اور قانونی ضابطوں کے خلاف آئی ہیں حتی خود ان کے قوانین کے خلاف آئی ہیں، ہم سب کا فریضہ ہےکہ ان کے خلاف قیام کریں، ہر شخص جس مقدار میں بھی ہوسکتا ہے، ان کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کرے اور آج کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں  ہے۔

(صحیفہ امام، ج5 ، ص 28)

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای رہبر معظم انقلاب:

اسلامی مذاہب کے تمام پیرو کار غدیر کے اصل واقعہ اور پیغمبر اسلام (ص) کی اس حدیث شریف یعنی " من کنت مولاه فهذا علی مولاه " کو مانتے اور اس پر ایمان رکهتے ہیں اور انهیں اس حدیث اور اس واقعہ کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے ...

غدیر خم کے واقعہ کے بارے میں شیعوں کی مضبوط، ٹهوس اور قطعی دلائل اور براہین کی جگہ، علمی محافل میں ہے اور اس مسئلہ کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے اور اس مسئلہ کا عام مسلمانوں کے درمیان منفی اثر نہیں ہونا چاہیے۔

(دفتر رہبر معظم انقلاب کی خبری ویب سائٹ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱/۔ غایت المرام، ص۷۹۔

۲/۔ ذخائر العقبی، ص۷۱؛ بحارالانوار، ج۳۸، ص۱۵۴۔

ای میل کریں