امام خمینی(رح) کی نظر میں، شہیدین رجایی اور باہنر

امام خمینی(رح) کی نظر میں، شہیدین رجایی اور باہنر

آغائے رجایی اور آغائے باہنر اس کے باوجود کے ایک صدر اور دوسرا وزیر اعظم تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ اقتدار نے ان کو متاثر کیا ہو، وہ خود اقتدار پر اثر انداز و غالب تھے۔

آغائے رجایی اور آغائے باہنر اس کے باوجود کے ایک صدر اور دوسرا وزیر اعظم تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ اقتدار نے ان کو متاثر کیا ہو، وہ خود اقتدار پر اثر انداز و غالب تھے۔

امام راحل(رح) صدر محترم محمد علی رجایی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر کی شہادت کی مناسبت سے عوامی اجتماع میں فرماتے ہیں:

ہماری ملت کی منطق اور اہل ایمان کی منطق، قرآن کی منطق ہے: انا للَّهِ وَ انّا الَیْهِ راجِعُونَ. .. دشمن کے خیال میں شخصیات اور اشخاص کے قتل کے ذریعے، اس ملت کے ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں؛ کیا انھوں نہیں دیکھا اور اندھے تھے، آنکھ کھول کر دیکھ لیں کہ ہم نے جس وقت بھی شہید کی قربانی پیش کی، ہماری قوم مزید متحد اور منسجم ہوئی ہے۔

جس ملت نے تمام عالمی طاقتوں کے سامنے قیام کیا ہو، جس قوم نے اسلام کےلئے قیام کیا ہو، اس ملت نے اللہ تعالی کےلئے قیام کیا ہے، احکام قرآن کی پیشرفت کےلئے کھڑا ہوا ہے، قتل کے ذریعے اس ملت کو پیچھے نہیں ڈھکیل سکتے ...

ہماری ملت نے علی بن ابی طالب(ع) جیسی شخصیت کو اسلام کےلئے فدا کیا ہے، ان جیسے شہدا کی قربانی پیش کرنا، ہماری قوم کےلئے کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں، اگرچہ یہ حادثہ اور جو شخصیات شہید ہوئے ہیں، ہماری نظر میں بہت ہی عزیز اور گرانقدر ہیں؛ اور جنابان رجایی اور باہنر، یہ دونوں شہید، فاسد اور ظالم طاقتوں کے ساتھ محاذ جنگ میں ایک دوسرے کے دوست و یاور تھے ...

جس ملک کا دل اللہ تعالی سے جا مل چکا ہو، اللہ کےلئے قیام کیا ہو اور جس نے ابتدائی دن سے ’’نہ شرقی اور نہ غربی‘‘ کی فریاد بلند کی ہو اور جس ملت کے چھوٹے، بڑ ے اور مرد و زن نے ’’ اللہ اکبر‘‘ کی صدا پر میدان میں حاضر ہوئے ہیں اور اس تحریک کو زندہ اور انقلاب بر پا کیا ہو، ہماری ہی ملت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالٰی ہمیشہ ہیں۔ رجایی اور دوسرے نہ ہوں، اللہ تبارک و تعالی تو ہیں ...

اور صحیفہ امام، ج۳، ص ۱۲۴میں پڑھتے ہیں:

آغائے رجایی اور آغائے باہنر اس کے باوجود کے ایک صدر اور دوسرا وزیر اعظم تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ اقتدار نے ان کو متاثر کیا ہو، وہ خود اقتدار پر اثر انداز و غالب تھے، یعنی وہ اقتدار کو اپنی مٹھی میں بند کرچکے تھے، اقتدار انھیں اپنے جنھڈے تلے نہ لاسکی اور یہ ایک درس ہے جو ہم انسانوں کو ان سے لینا چاہئے اور الحمدللہ اس جمہوری میں ایسے اشخاص جن کو اقتدار نے نہ بدل  سکی، بہت ہیں ...

لهذا، میں اس كے باوجود كہ ’’ و ما ابَرّئُ نَفْسی‌ انَّ النَّفْسَ لَامَّارَةٌ بِالسُّوء‘‘ [اور میں اپنے نفس کو بری نہیں كر رہا ہوں، بے شك نفس ضرور اُكساتا ہے بدی پر] آپ صاحبان سے عرض كرتا ہوں، ضرور اس بات کی طرف متوجہ رہیں، اقتدار و کرسی کچھ دنوں کے بعد ختم ہوجائیں گی۔ جن  لوگوں کے پاس بڑی طاقتور اقتدار تھی، ان کی اقتدار بھی کچھ دن بعد ختم ہوگئی ...

ہم سب حضرت حق تعالی کے حضور میں ہیں اور تمام امور، تمام نفسانی تمایلات اور کروٹیں وہاں ہمارے نامہ اعمال میں ثبت و ضبط ہیں اور ہمیں وہاں کی فکر کرنی چاہئے۔

 

ماخذ: harammotahar.ir سے اقتباس

ای میل کریں