مسجد گوهر شاد کے عظیم خونین قیام

مسجد گوهر شاد کے عظیم خونین قیام

مشہد میں واقع مسجد گوہر شاد کا سانحہ، محمد رضا پہلوی کے دور حکومت کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔

مشہد میں واقع مسجد گوہر شاد کا سانحہ، محمد رضا پہلوی کے دور حکومت کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔

جماران رپورٹ کے مطابق، ترکی کے دورے سے واپسی کے بعد رضا پہلوی نے ایرانی معاشرے میں جدید ثقافت کے نفاذ کےلئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے، اسلام کے خلاف کوششیں تیز کردی اور 1935 میں مردوں کےلئے شاپو کے نام سے موسوم ٹوپی کو لازمی قرار دینے کے ساتھ خواتین کے حجاب کے خلاف اقدام کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں جس کے رد عمل میں عوام اور روحانیت نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے ایک عظیم قیام کی جدید تاریخ کو ایران کی تاریخ میں رقم کر ڈالا۔

مشہد مقدس کے علما اور دانشوروں نے متعدد میٹینگوں کے بعد یہ طے کرلیا کہ رضا خان کے اس اقدام کے خلاف مزاحمت اختیار کی جائے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں رضا خان کے ساتھ مذاکرات کےلئے آیت اللہ حاج آغا حسین قمی کو  تہران بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاہم آیت اللہ حاج آغا حسین قمی کے تہران پہنچتے ہی فوج نے انہیں گرفتار کرکے رضا شاہ کے ساتھ ملنے سے روک دیا۔

12 جولائی 1935 جمعہ کی صبح، مشہد میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے مسجد گوہر شاد میں موجود لوگوں کو منتشر کرنے کےلئے کارروائی کرتے ہوئے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں بہت سے افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ اس سانحے کے رد عمل میں اگلے دن ایک بڑے ہجوم نے مسجد گوہر شاد میں جمع ہوکر حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مشہد میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے اس بار رضا خان کے دستور کے مطابق پوری طرح مسلح ہوکر عوامی احتجاج کو کچلنے کےلئے اقدام کیا اور دوپہر کو فوج اور پولیس ہر سمت سے مسجد میں حملہ آور ہوئی اور مسجد میں داخل ہوکر بے دردی سے لوگوں کا قتل عام شروع کیا۔ اس سانحے میں جہاں بہت سے لوگ شہید اور زخمی ہوئے وہیں عوام اور علماء کی بڑی تعداد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں