فکری جمود کےلوگ دوسروں کےخلاف مقدمہ چلانے کی کوشش میں

فکری جمود کےلوگ دوسروں کےخلاف مقدمہ چلانے کی کوشش میں

آج فکری جمود کا شکار ایک گروہ، میدان فکر کا شہسوار بن کر دوسروں کے خلاف مقدمہ چلانے لگا ہے اور وہی گروہ حق و باطل کا معیار بنا ہوا ہے!!

یادگار امام نے کہا: ہر وہ گفتگو جو اخلاقیات اور انسانیت کے انحطاط کاباعث بنے، اسے دینی گفتگو کا نام نہیں دیا جاسکتا؛ نیز ایسے افکار کو جو اخلاقیات کے ساتھ ہمآہنگ کرتے ہوئے انسان کو جینے کا طریقہ نہ بتائے، دینی افکار کے عنوان سے یاد نہیں کیا سکتا۔

جماران کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے "امام خمینی، سیاسی اسلام اور معاصر دنیا" کے عنوان سے منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں کانفرنس کے عنوان کے جائزے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: سیاسی اسلام کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمارے یہاں اسلام کئی قسمیں ہو، بلکہ سیاسی اسلام کا مطلب یا تو اسلام کے سیاسی پہلو مراد ہوسکتے ہیں یا پھر اس سے  مراد ان لوگوں کے نظرئے کی تردید ہو کہ جو اسلام کو سیاست سے الگ سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے برعکس، اسلام کامل وہی ہے جو سیاسی اور غیر سیاسی دونوں امور پر مشتمل ہو۔

انہوں نے یہ سوال اٹھاتے ہوئےکہ امام خمینی نے سیاسی گفتگو کی کس قسم کو اپنے دینی افکار میں جگہ دی ہے؟ کہا: ہم اس وقت اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ آج دنیائے اسلام، دور جدید کے مسائل کے ساتھ کس طرح دست بہ گریباں ہے۔ مستقبل میں آج کے دور کو تاریخ اسلام کے تاریک اور تلخ دور کے عنوان سے یاد کیا جائےگا۔

یادگار امام نے سوال کرتے ہوئےکہ امام خمینی کے سیاسی افکار میں وہ کونسی خصوصیات شامل تھیں جو امام کے افکار کو ایسے افکار سے ممتاز بنا دیتی ہیں جس میں قتل و غارتگری کے علاوہ کوئی اور عنصر نہیں پایا جاتا؟ کہا: فکری جمود کا مقابلہ، امام کی سوچ کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ساتھ عوامی رائے عامہ پر توجہ بھی امام کے افکار میں شامل ہے۔

انہوں نے شام، عراق، یمن، بحرین، لبنان، شمالی افریقہ اور لیبیا جیسے ملکوں کے بحران کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا: اس بات کا امکان پایا جاتا ہےکہ یہ بحران اسلامی دنیا کے دوسرے خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے۔ ایسے میں ضروری ہے تہذیب اور تمدن کے سینے سے ابھرنے والی دینی گفتگو کا سہارا لیا جائےکہ جو ہر طرح سے قتل و غارتگری اور جنگ کے تصور سے عاری ہو۔

سید حسن نے تاکید کرتے ہوئے کہا: ایران کا اسلامی انقلاب اور اس کے تمام رہنما ہر قسم کے فکری جمود سے پاک ہیں، تاہم جو لوگ فکری جمود کا شکار تھے وہ بزعم خود انقلاب اسلامی کےلئے ہر طرح کی جد وجہد کو حرام سمجھتے تھے۔ اب یہ الگ بات ہےکہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد انقلاب سے کیسے ملحق ہوئے؟

خمینی جوان نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہ آج فکری جمود کا شکار ایک گروہ، میدان فکر کا شہسوار بن کر دوسروں کے خلاف مقدمہ چلانے لگا ہے اور  وہی گروہ حق و باطل کا معیار بنا ہوا ہے، کہا: امام نے کبھی بھی دہشت گردانہ کارروائیوں اور بم دھماکوں کی اجازت نہیں دی۔ بسا اوقات اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلانے والے گروہوں کے خلاف رد عمل دکھاتے ہوئے آپ نے فرمایا: ان دہشتگردانہ کارروائیوں کا انقلاب سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت میں امام خمینی، عوامی طاقت سے ہٹ کر انجام پانے والی ہر تحریک کو مردود سمجھتے تھے۔

انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہ صدور انقلاب کا مقصد، حقیقت میں افکار کا صدور تھا اور افکار کا صدور بہت موثر ہونے کے ساتھ صحیح اور مناسب بھی ہے، کہا: بعض لوگ اسلامی انقلاب کو "کیسٹوں کا انقلاب" کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ امام خمینی کی ریکارڈ شدہ تقریروں سے لوگ متاثر ہوکر میدان میں آتے تھے۔

سید حسن خمینی نے آج کے دور میں دنیائے شیعیت، اسلامی دنیا اور انسانیت کے حق میں مفید اور کار آمد سیاسی گفتگو کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: آج ہمیں سیاسی گفتگو کی ضرورت ہےکہ جو شیعہ کمیونٹی کےلئے شیعہ فقہی اصولوں پر قائم ہو؛ تاہم اسلامی معاشرے کےلئے شیعہ گفتگو سے زیادہ وسیع پیمانے پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں انسانی معاشرے کےلئے بھی گفتگو کے حوالے سے پروگرامنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

سید حسن خمینی نے اس طرح کی کانفرنسوں کے انعقاد کے نتیجے میں وجود میں آنے والی ہمدردی سے متعلق امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا: امید کی جاتی ہےکہ مستقبل میں، ہم ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہونگے۔

 

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں