عاشورائی ثقافت كا تجسم

عاشورائی ثقافت كا تجسم

راوی: حجت الاسلام علی دوانی

سنہ ۱۳۲۸ شمسی (۱۹۴۹)، میں مزید تعلیم کےلئے شہر مقدس قم گیا، وہاں آیت اللہ العظمی امام خمینی ۔رضوان اللہ علیہ۔ کو مجالس عزا میں دیکھتا تھا۔ آج کی تعبیر میں ’’عاشورائی ثقافت‘‘ کو اپنی آنکھوں کے سامنے مجسم دیکھتا تھا۔

حضرت امام خمینی(رح)، ائمہ اطہار(ع) کی عزاداری کی مجالس میں جو حضرت معصومہ(س) کے بالاسر یا مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی(رح) کے گھر میں منعقد ہوتے تھیں، اس قدر وقار اور اطمینان و سکون کے ساتھ اٹھتے بیٹھے اور واعظ یا خطیب کی باتوں کو سنتے تھےکہ ہر کسی کی نگاہ کو اپنی طرف جذب کرتے تھے۔

جب خطیب مصیبت پڑهنے كے موڑ پر پہنچتا یا ذاكر اہل بیت(ع) کی مصیبت شروع كرتا، حاج آقا روح الله خمینی سب سے پهلے شخص تهے جو سفید اور صاف ستهرا رومال اپنی جیب سے نكلتے اور چهرے پر ركهتے اور رونا شروع كرتے تھے۔

امام(رح) نے اہل بیت(ع) كی عزا كے مجالس میں بیٹهنے، وعظ اور شهدائے كربلا كے مصائب سننے اور رونے سے ہم سب كو سیكهایا كہ ’’ عاشورائی ثقافت‘‘ كی حرمت كا پاس ركهنا چاہیئے۔

 

ماخذ: امام خمینی پورٹل

ای میل کریں