صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے خرداد سنہ 1342 (1963) کی اسلامی تحریک کا آغاز اور اس دور کے اہم دنوں کے کردار پر تاکید کرتے ہوئے، کہا: امام راحل کی رحلت کے فوراً بعد حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا انقلاب اسلامی کی قیادت پر منتخب ہونا، اللہ سبحانہ تعالی کا خاص فضل و کرم اور رحلت امام(رح) پر عوام کے غم و اندوہ کو دور کرنے نیز لوگوں کے دلوں کی تسکین اور نظام کے استحکام کا باعث تھا۔
جماران رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسن روحانی، ثقافتی انقلاب سپریم کونسل کی نشست میں ۱۳ خرداد، سنہ ۱۳۴۲ (3 جون 1963 عاشورا حسینی) میں امام خمینی(رح) کی تاریخی تقریر اور اسلامی تحریک کے عروج کی جانب اشارہ کرنے کے ضمن میں، رہبر کبیر انقلاب کی رحلت اور برسی کی مناسبت سے تعزیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ حضرت امام (رح) کی راہ و روش کو مقام معظم رہبری کی ہدایتوں کی تجلیات کے سایہ میں، بعض ملکی مشکلات کو رفع کرنے کے ساتھ، انقلاب اسلامی کے بلند و بالا اہداف جلد از جلد محقق ہو۔
ثقافتی سپریم کونسل کے صدر نے رحلت امام (رح) کے بعد، وقت کے سپریم گارڈین کونسل میں رہبری کے مسئلے پر شورائے رہبری کے انتخاب کے پیشکش پر پیدا ہونے والی پریشانیوں کی تشریح کرتے ہوئے، مزید کہا:
ان تمام مسائل کے با وجود اللہ سبحانہ تعالٰی کی خاص توجہ اور کرم سے، بہت ہی کم فاصلے میں رہبر معظم انقلاب، منتخب ہوئے جو عوام کے غم و اندوہ دور، قوم میں آرام و سکون اور نظام کے استحکام کا باعث بنا۔
ڈاکٹر روحانی نے تاکید کی کہ ۱۴ خرداد سنہ ۱۳۶۸ (4 جون 1989) کو ایسی شخصیت منتخب ہوئی جو صرف اس روز نہیں، بلکہ اگر کسی اور وقت میں بھی اور آج بھی رہبری جیسی سنگین ذمہ داری کےلئے کسی فرد کو انتخاب کرنا ہوتا تو ہمیں یقیناً حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے زیادہ صالح نہ ملتا۔ لہذا ہم سب کو بیک صدا اللہ تعالی کے اس فضل و کرم پر شکرگزار ہونا چاہئے اور اس نعمت کا اپنی یکجہتی کے ساتھ، قدر کرنا ہوگا۔
ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ