امام خمینی(رہ) کی اخلاقی روش وفکر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ اخلاقی وتربیتی مسائل کو بیا ن کرنے میں ایک جامع اور ہمہ گیر فکر رکھتے تھے آپ اسلام کو ایک جامع دینی اور انسان کو ایک ایسی موجود سمجھتے تھے جو بہت سے خصوصیات وعادات اور خصائل کامالک ہے چنا نچہ آپ اپنی اخلاقی روش میں انسان کے تمام وجودی ابعاد کی طرف توجہ رکھتے تھے آپ کو ا ن لوگوں سے شدت کے ساتھ شکوہ تھا جو انسان کے صرف ایک پہلو پر توجہ کرتے اور دوسرے پہلوؤں کو نظر ا نداز کر جاتے تھے اور اسے ایک غیر اہم آہنگ اور بے قانون موجود جا نتے تھے آپ فرماتے ہیں :’’افسوس کہ۔۔۔ اسلام ہمیشہ سے ایک رخی کاشکار رہاہے (دوسرے پہلوؤں کو نہیں دیکھا گیا )۔۔۔ لوگوں نے ہمیشہ ایک ورق کو لیا اور اس کے دوسرے ورق کو حذف کردیا یا اس کی مخالفت کی ہم بڑی طولا نی مدت تک عرفاء کے جال میں گرفتار تھے۔۔۔ ان افراد نے اچھی خدمات ا نجام دی ہیں لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ لوگ ہر چیز کو صرف اس (معنویت) کی طرف لوٹاتے تھے۔‘‘
’’۔۔۔ ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہم ایک دوسرے گروہ سے روبرو ہوئے جو تمام معنویات کو اس طرف لوٹاتا تھا اس کو معنویات سے کوئی سروکار ہی نہ تھا‘‘۔(صحیفہ امام،ج۸، ص۵۲۹)
امام خمینی(رہ) ظاہر و باطن کے درمیان رابطہ کے قائل تھے جو لوگ صرف احکام کے ظاہر اور دین کے آداب پر اکتفاکرتے اور باطن سے غفلت کرتے تھے ا ن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ شریعت کے بغیر طریقت اور حقیقت تک نہیں پہنچاجاسکتا۔۔۔ ’’لولا الظاہر لما وصل سالک الیٰ کمالہ ولا مجاہد الیٰ مآلہ‘‘ اگر ظواہر کی رعایت نہ کی جائے تو کبھی بھی سالک، کمال تک اور جہاد و کوشش کرنے والا مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (شرح دعائے سحر،ص۶۲)
وہ ا ندرونی تزکیہ وتہذیب کی دعوت دیتے ہوئے انسان کو معاشرہ اور اجتماع سے دور نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ اجتماع کے درمیان میں رہ کر محبوب کا خیال رکھا جاسکتاہے:
’’اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں ۔‘‘ (صحیفہ امام،ج۱۳، ص۱۳۰)
آپ سیاسی اور معنوی تقوی کے درمیا ن کسی منافات کے قائل نہ تھے آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ سیاسی مسائل اور اجتماعی حوادث میں رہنا تقویٰ سے کوئی منافات نہیں رکھتا۔
آپ نے ’’سفر من الخلق الی الحق‘‘ کا پورا مرحلہ طے کیا تھا دوبارہ خداکے ساتھ مخلوق کے درمیا ن میں قدم رکھا اور ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھی جس نے انسان کی تربیت و تہذیب میں لوگوں سے کنارہ کش نہیں رکھا اور نہ تو معنویات سے دور رکھا بلکہ آپ کی تربیتی واخلاقی روش کی شعاع انسان کے وجودی مراحل پر ضوفشاں تھی۔
امام خمینی(رہ) کے اخلاقی افکار اس قسم کے تھے کہ آپ کو یہ بات پسند تھی کہ اگر معراج حاصل ہوجائے تو وہاں سے واپس نہ آئیں، مخلوق کے سارے غم الگ ہوجائیں یا آپ اس دنیا کی زندگی کو اپنی شان کے مطابق نہیں جا نتے تھے اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کو ایک قسم کی مجبوری سمجھتے تھے چنانچہ آپ اس آیت کریمہ ’’رِجَالٌ لاٰ تُلْہِیہِمْ تِجَارَۃٌ وَلاٰ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ ‘‘ (سورۂ نور ،۲۴؍۳۷) کا مکمل نمونہ تھے آپ کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ دنیا کو دنیا طلب اور دنیاپرست افراد کے سپرد کردیا جائے، سلامت نفس اور سعادت آخرت کیلئے دنیا اور دنیاداری سے کنارہ کشی کرلی جائے اور اس سے خداحافظی کرلی جائے بلکہ آپ تہذیب ودیانت کے ساتھ ساتھ تدبیر وسیاست کو بھی معاون سمجھتے تھے۔ آپ اپنی اخلاقی تعلیمات میں مخلوق خداکی خدمت اور ڈوبے ہوئے انسان کو نجات دینا فخر کے ساتھ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔