حقیقت دین، خدا وند عالم کے ساتھ رابطہ کو کہتے ہیں ۔ یہ رابطہ وہی وحی اور الٰہی پیغام ہے جو نبی، رسول اور ان کے اوصیا کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ رسول، نبی اور وصی دین کے پیکر ہیں اور فکر و عمل اور قول کے ارادی پہلوؤں میں دین کے ترجمان ہیں ۔ اسی لئے نبی اور رسول کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ وہ انسان کے ارادی پہلووں اور خداوند عالم کے درمیان مجسم رابطے سے عبارت ہیں ۔ اس تعریف کی رو سے مختلف مسائل (جیسے نظریہ کائنات، اسنان شناسی، تاریخ، احکام، قانون، اخلاق اور عقائد وغیرہ ) کے بارے میں دین کا پیغام، فکر و عمل کے میدانوں میں خدا کی ارادی پرستش وعبادت اور اس سے وابستگی کی طرف راہ دکھلاتا ہے، ( خدا کی معرفت اور اس کی اطاعت)۔
امام خمینی ؒ کی نظر میں دینی معرفت کی حدود:
امام خمینیؒ کے ارشادات میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ دینی معرفت کی حدود، خدا کی معرفت ہے:
’’دین حق، اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے۔ اصولاً انبیاء ؑ انسان کی تربیت کے لئے آئے ہیں ۔۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۲۳۵)
’’کتاب خدا اور انبیائے کرام کا اصل مقصد معرفت کا فروغ ہے اور وہ جو کچھ کرتے، خدا کی معرفت کو حقیقی معنوں میں فروغ دینے کے لئے کرتے تھے۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۱۱۵)
’’انبیاء جس مقصد کے لئے مبعوث ہوئے تھے تمام دوسرے مسائل اسی مقصد کا پیش خیمہ ہیں اور وہ مقصد ہے توحید کی اشاعت اور عالم کے بارے میں لوگوں کی شناخت کہ عالم کیسا ہے، عالم کو جس طرح ہے اسی طرح پیش کرنا نہ کہ اس طرح جیسے ہم محسوس کرتے ہیں ۔۔۔‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۲۸۵)
’’انبیاء کا مقصد حکومت نہیں تھا، حکومت کسی اور مقصد کے لئے تھی اور یہ بذات خود کوئی مقصد نہیں تھی، تمام مقاصد اور جو کچھ دنیا میں واقع ہوتا ہے اللہ کی معرفت کے گرد گھومتے ہیں اور انبیاء جس مقصد کی تکمیل چاہتے تھے وہ خدا شناسی تھا اور اگر خدا شناسی حقیقی معنوں میں حاصل ہوجائے تو باقی ساری چیزیں اس کے بعد حاصل ہوجاتی ہیں ۔ ۔۔۔ بات یہ ہے کہ ان سب کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو خدا سے آشنا کریں ‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۴۳۷)
’’ساری دعوتیں انسان کو جگانے کے لئے ہیں یعنی انسان کو سمجھانے کے لئے، اسے یہ دکھانے کے لے کہ وہ کیا تھا، کیا ہے اور کیا ہوگا اور دنیا کا حق تعالیٰ کی مقدس ذات سے کیا تعلق ہے‘‘۔ (صحیفہ امام، ج۱۹، ص ۲۸۶)
دینی معرفت کی قلمرو خداوند عالم کی شناخت اور اس کی عبودیت ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ دین کا ئنات اور انسان کی خداودند عالم سے وابستگی کے نظام کا تکمیل کنندہ ہے، اگر انسان کو ارادی پہلو (فکر وعمل) میں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے عدم وابستگی کی راہ میں کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس کا نتیجہ اس وابستگی کے نظام میں خامی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ جب کہ کائنات اور انسان کی تخلیق حکمت کی بیادوں پر کی گئی ہے اور اس کے کسی پہلو میں کوئی خامی موجود نہیں ہونا چاہئے۔ عبودیت کے دائرے سے ارادے کا خروج وابستگی کے عمل میں نقص کے مترادف ہے اور یہ حکمت الٰہی کے خلاف ہے اس لئے دین کو حکیمانہ تخلیق کی تکمیل کے لئے (جو اللہ تعالیٰ سے وابستگی کے عین مطابق ہے) خدا کی طرف سے انبیاء رسولوں اور اوصیا کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دین، ارادی نظام اور نظام تکوین (تخلیق) کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، نظام تکوین یعنی خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا۔ ارادی نظام میں انسان کو تکوین کے ساتھ یک سو اور خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا چاہئے۔