جماران کی رپورٹ کے مطابق، یادگار امام نے آرمان اخبار کے نامہ نگار کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بہت اہم نکات کی جانب اشارہ کیا جس کا خلاصہ حاضر خدمت ہے:
آرمان: لوگوں کی کثیر تعداد میں امام کے گھرانے آمد و رفت اور آپ سے ملاقات کے پیش نظر، آپ کی نظر میں اس وقت عوام کے بنیادی مطالبات کیا ہیں؟
سید حسن خمینی: انقلاب کے آغاز سے آج تک سماج میں عدالت کا قیام لوگوں کا اہم مطالبہ رہا ہے تاہم مختلف ادوار میں حالات کے تقاضوں کے مطابق اس حوالے سے بعض موارد کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ حالات میں لوگوں کا اہم مطالبہ اقتصادی حالات کی بہتری کے ساتھ سیاسی اور ثقافتی میدان میں عدالت کا قیام ہے اور یہ اپنی جگہ جائز اور معقول مطالبہ ہے، یہ اس قوم کا مطالبہ ہے جس نے مشکل حالات میں امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلامی نظام اور انقلاب اسلامی کا بھر پور دفاع کیا ہے۔
آرمان: آج کے دور میں بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والے حساس حالات کے پیش نظر قومی اور سیاسی یکجہتی کی اہمیت کس قدر ہے؟ نیز قومی اتفاق رائے پر پہنچنے کا طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے؟
خمینی: امام خمینی نے ہمیشہ اس نکتے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح قومی اتفاق رائے سے انقلاب اسلامی، کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے اسی طرح اس کی بقاء کا راز بھی قومی اتفاق رائے میں مضمر ہے۔ لہذا جہاں ہمیں اتحاد امت اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنا ضروری ہے وہی اختلاف اور تفرقہ سے اجتناب بھی ضروری ہے اور اس میں شک نہیں کہ آج کے دور میں علاقائی سطح پر رونما ہونے والے حالات کے پیش نظر قومی اتحاد کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
آرمان: آپ کی نظر میں ہمارے ملکی میڈیا نے حالیہ انتخابات میں ووٹرز ٹرن آؤٹ کے اضافہ میں کس حد موثر کردار ادا کیا ہے؟
خمینی: اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میڈیا اور میڈیا کے ذریعے تشہیر کئے جانے والے پیغامات، تمام میدانوں میں صف اول میں نظر آتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کے حسین امتزاج سے ہر فرد اپنی ذات کے دائرے میں ایک میڈیا کا کردار ادا کررہا ہے، آئے دن ڈیجیٹل میڈیا کی جدت طرازی اور اس کی وسعت نے خاص طور پر سوشل میڈیا کے اندر ایسی فضاء ہموار کردی ہے جس سے لوگوں کو حاصل ہونے والی معلومات اور انفارمیشن میں سنسرشپ کا معیار تقریبا ناپید ہوگیا ہے، اسی لئے آج کے دور کو فلٹر اور سنسرشپ کی ناکامی کا دور کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
آرمان: حوزہ علمیہ کے ایک استاد کی حیثیت سے، آپ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ اس وقت دینی مدارس کےلئے سب بڑا خطرہ کیا ہوسکتا ہے؟ اگر سماج کا رابطہ روحانیت سے منقطع ہوجائے تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
خمینی: فقہ کو اپ ڈیٹ کرنے میں زمان اور مکان کی تاثیر سے متعلق امام خمینی کی تاکید کے باوجود اب تک اس حوالے سے ایک جامع اور منظم منصوبہ بندی عمل میں نہیں آئی ہے لہذا اگر دینی مدارس (حوزات علمیه) اپنی تدریسی روش اور علمی قواعد اور اصولوں کو آج کے جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں ناکام ہوئے تو یہ مسئلہ عوام اور دینی مدارس کے درمیان شگاف کا باعث بن سکتا ہے جس کے ناقابل تلافی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
دینی مدارس کے حوالے سے ایک اور بات جس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دینی مدارس کا حکومت سے وابستہ ہونا ان کےلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے لہذا حوزات علمیہ کو حکومت سے وابستگی اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
http://ofoghetaze.com/fa/news