۱۱ فروری یوم آزادی، یوم اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ قائد اعظم، بانی اسلامی جمہوریہ ایران، امام خمینی[رح] نے ایران میں شاہی حکومت کے جابرانہ نظام کے خلاف مذہبی اقدار پرمبنی ایک کامیاب عوامی انقلاب برپا کیا جس نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو شکست دی۔
آیت اللہ العظمی امام خمینی کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے ایران کے تاریخ ساز انقلاب میں علمائے ایران اور ایرانی عوام کی نظام ظلم کے خلاف مثالی قربانیوں نے دنیا کو محو حیرت کردیا کہ ایران کی شاہی حکومت جسے امریکی سرپرستی بھی حاصل تھی، علمائے ایران اور عوام نے ایک طاقتور حکومت کو کیوں کر شکست دے دی!!
ایران کے تاریخ ساز انقلاب کے محرکات و عوامل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایرانی انقلاب رضا شاہ پہلوی کے اس آمرانہ نظام کے خلاف برپا گیا تھا جہاں عوامی حقوق کی پامالی شاہی حکومت کی ایک روش بن گئی تھی۔
شاہ ایران کی مغرب نواز پالیسیوں کے سبب ایرانی عوام اپنی تہذیب و تمدن کا تشخص کھو رہے تھے۔
ایران میں مذہبی آزادی دم توڑ رہی تھی۔
اسلامی احکام کی اعلانیہ خلاف ورزی نظام شاہی کا حصہ بن چکی تھی۔
شاہی حکومت علماء کو قدر کی نظروں سے نہیں دیکھ رہی تھی۔
مذہبی اجتماعات پر ایران کی خفیہ پولیس ساواک کے پہرے تھے۔
اس کے برعکس، شاہی حکومت نے مغربی آقاوں خصوصاً امریکہ کو خوش کرنے کےلئے ۱۹۶۳ میں پارلیمنٹ بل کے ذریعے طاغوتی طاقتوں کے نمائندوں کے ایران میں ارتکاب جرائم اور غلطیوں پر ایرانی عدالت خانوں میں کیس دائر کرنے سے روکا گیا تو انقلاب کربلا کے پیرو امام خمینی سے رہا نہیں گیا۔ انھوں نے شاہی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلندکردی۔
انقلاب ایران کا آغاز ہی مجلس سید الشہداء امام حسین علیہ السلام سے ہوا تھا۔ مدرسہ فیضیہ، جہاں آزادیٔ ضمیر انسانی کے سرخیل امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے ہزاروں کی تعداد میں علماء عزاداری مجلس میں مجتمع ہوئے تھے، اس مجلس میں ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ خمینی رحمة اللہ علیہ نے شاہی حکومت کے ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر ایرانی عوام کی غیرت کو للکارا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں شاہی حکومت کی خرابیوں اور اس کے مظالم کی نشاندہی کرتے ہوئے حق پر قربان ہوجانے والے شہیدان کربلا کو یاد کیا تھا۔
اس طرح ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ خمینی نے ایرانی عوام کی غیرت کو للکارا اور ایرانی عوام میں انقلاب کی روح پھونک دی۔
اسی مجلس میں مسلح شاہی فوج نے حسینیت کی تاسی کرنے والے عزاداروں پر حملہ کرکے ہزاروں بے گناہوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی آزادی کے متوالوں کے فلک شگاف نعرے جس نے ایوان شاہی کو ہلا کر رکھ دیا، اپنے انقلاب کو کامیاب بنانے کےلئے حسینیت کا اس طرح دم بھرتے نظر آتے ہیں:
رہبر ما خمینیؒ است نہضت ما حسینیؑ است
ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ خمینی نے خود اپنے انقلاب کا تعارف کراتے ہوئے اپنے بے شمار بیانات، تقاریر میں ایران کے انقلاب کو کربلا کا مرہونِ منت قرار دیا ہے:
''انقلاب اسلامی ایران عاشورا اور اس کے عظیم الٰہی انقلاب کا پرتو ہے۔ ہمیں جو کچھ ملا ہے وہ محرم و عاشور کی بدولت ملا ہے''۔
اور فرماتے ہیں:
''حالانکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہر نقصان سے بڑا نقصان تھا لیکن چونکہ وہ جانتے تھے کہ کیا کر رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ لہٰذا انھوں نے ایثار کیا اور شہید ہوگئے۔ ہمیں اس ایثار کو مدنظر رکھنا چاہیۓ کہ انھوں نے کیا کیا اور ظلم کی بساط کو الٹ دیا اور ہم نے بھی یہی کرکے دکھایا ہے''۔
اور امام خمینی نے فرمایا:
''حسین علیہ السلام مظلوم کو چاہنے والوں کےلئے باطل کے مقابل اقدام کرنے کےلئے ہر دن عاشور اور ہر زمین، کربلا ہے''۔
سینۂ تاریک سے پھر نور کی پھوٹی کرن
رحم زخمِ غریباں بن گیا حرف سخن
چاک ہوکر رہ گیا پیراہن مکر و فتن
اور زمین پر آگرا مینارہ قصر کہن
پرچم اسلام لے کر یوں خمینی آگیا
جیسے دست کربلا میں ایک حسین آگیا
ماخذ: http://imamrezashrine.aqr.ir/ تخلیص کے ساتھ