شرعی احکام اس طرح کے گوناگوں قوانین پرمشتمل ہیں کہ جو ایک معاشرتی اور کلی نظام کو تشکیل دیتے ہیں، آدمی کو جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب اس حقوقی نظام میں موجود ہیں، مثلاً پڑوسی کے ساتھ کس طرح سلوک کرنا ہے، اولاد کے ساتھ کس طرح زندگی بسر کرنا ہے، رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرنا ہے، قوم اور اپنے وطن کے لوگوں کے ساتھ کس طرح رہنا ہے، خاص امور کی انجام دہی اور گھریلو زندگی کس طرح ہونی چاہیے، نیز جنگ وصلح اور تعلقات کے اصول کیا ہونے چاہئیں، دیوانی قوانین یہاں تک کہ تجارت وصنعت اور زراعت کے طور طریقہ کیا ہیں، نکاح اور نطفہ منعقد ہونے سے پہلے کے بھی احکام موجود ہیں، نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نکاح کا کیا طریقہ ہے اور اس وقت یا نطفہ منعقد ہونے کے وقت آدمی کی خوراک کیا ہونی چاہیے، دودھ پلانے کے زمانہ میں ماں باپ کا کیا فرض ہے، بچے کی تربیت کس طرح ہونی چاہیے، میاں بیوی کے آپس میں اور بچوں کے کس طرح تعلقات جو متحرک اور مجسم ہونے چاہئیں، ان سب چیزوں کیلئے اسلام قوانین وضوابط رکھتا ہے تاکہ انسان تربیت کرسکے، ایسا انسان کہ کیسے قانون ہو ۔
یہ بات معلوم ہے کہ اسلام حکومت اور معاشرہ کے سیاسی واقتصادی تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے تاکہ ایک مہذب وبافضیلت انسان کی تربیت کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جاسکیں۔ قرآن اور سنت ایسے تمام اصول واحکام موجود ہیں کہ انسان کو کامیابی وکمال تک پہنچنے کیلئے جن کی ضرورت ہے، کتاب اصول کافی میں ایک فصل کا عنوان ہے ’’لوگوں کی جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے وہ سب کتاب وسنت میں موجود ہیں‘‘ کتاب یعنی قرآن جو { تبیان کلّ شيئ} یعنی ہر چیز کو بیان کرنے والا ہے، روایات کے مطابق امام ؑقسم کھا کر فرماتے ہیں کہ پوری ملت کو جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب قرآن وسنت میں موجود ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ولایت فقیہ، ص ۲۹