اگر ہمارے اندر تھوڑا سا اخلاص بھی پیدا ہو تو ہمیں چاہئے کہ اپنا تعارف پیش کرتے وقت لوگوں کی ہدایت کو اپنا مطمع نظر قرار دیں ۔ (البتہ ہمیں اپنی تعریف نہیں کرنی چاہئے اور یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے) اگر آپ اپنی خاطر ایسا کر رہے ہوں تو جان لیں کہ یہاں شیطان کا عمل دخل ہے ۔اگر ہم یا آپ صدر جمہوریہ کی مخالفت کر رہے ہیں تو جان لیں کہ یہ کام خدا کیلئے نہیں ہے بلکہ ابلیس کی کارستانی ہے ۔ اسی طرح اگر ہم موجودہ حکومت کی تکذیب کریں جو شایان شان طریقے سے مصروف خدمت ہے اور جس پر ہمیں اعتماد ہے تو جان لیں کہ یہ تکذیب ابلیس کی کارستانی ہے اور یہ عمل خدا کے لئے نہیں ہے ۔اگر ہم فوج کی برائی بیان کریں تو جان لیں کہ یہ بھی شیطان کے عمل دخل کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم سپاہ (پاسداران) کی بدگوئی کریں تو جان لیں کہ اس میں شیطان کا عمل دخل ہے خدا کا نہیں ۔
عام طور پر انسان اس اخلاص کو اپنے باطن کی کسوٹی پر پرکھ کر محسوس کر لیتا ہے ۔اگر وہ سمجھنا چاہے تو کسوٹی موجود ہے۔ جو شحض کسی بڑے عہدے پر فائز ہو وہ شاید سوچے ’’اگر یہ عہدہ فلان شحض کے پاس ہوتا تو وہ اس کیلئے مجھ سے بہتر ثابت ہوتا۔ دیکھئے کیا وہ سچ مچ اس بات پر راضی ہے کہ اس کی جگہ وہ دوسرا شحض ہوا ور وہ خود نہ ہو ؟ اگر وہ اس بات پر راضی ہو تو وہ جان لے کہ اس کے اندر عالم غیب کا کوئی کرشمہ ہے لیکن اگروہ اس پر راضی نہ ہو تو وہ جان لے کہ اس کے اندر عیب ہے اور خودپرستی کاشکار ہے۔ البتہ ہم لوگ اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے سو فیصد نہیں بچا سکتے۔ہمارے اندر اتنی قوت نہیں ہے لیکن اتنی قوت ضرور ہے کہ اپنے آپ کو لگام دیں اور اظہار نہ کریں ۔ ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ اگر ہم کسی شخض کے سچ مچ مخالف ہیں تو اس کی عداوت سے اے دل کو خالی رکھیں لیکن اتنی طاقت ضرور ہے کہ عملی طور پر ان کا موں (عداوت وغیرہ) کا اظہار نہ کریں ۔
صحیفہ امام، ج۲۰، ص ۲۲۸