شاہ کے کمانڈوز کا مدرسہ فیضیہ پرحملہ، عصر عاشورا، امام کی تقریر اور امام کی گرفتاری کے بعد ان تمام حالات اور مراحل میں میری کوشش تھی کہ اپنے کام میں مصروف رہوں اور آرام و راحت کے وقت پمفلٹز کُپی کروں ۔
اور بعد میں جب پلی کوپی کی مشین آئی جو اُس وقت ایران میں بہت کم تھی چلانا سیکھ اور کچھ عرصہ تجربات کےبعد میں اس میں کامیاب ہوا کہ عام شیشے کی تکڑ ے اور کچھ اینگ اور تھوڑی بہت ٹالک پاؤڈرسے یہی کام کروں ۔
جب سنہ 1342 (1963) کو امام قید سے نکال کر گھر میں نظر بندکیا گیا اور قم، مشہد اور دیگر شہروں سے مراجع عظام اور بزرگ علماء، تہران پہنچے، طے یہ پایا کہ کچھ صفحات چھاپا جائے اور عوام سے تائیدکے طور پر دستخط لینے کے بعد، تہران ارسال کیاجائے ۔
بہت ہی مختصر سی متن تیار کی گئی جس پر فردکی صرف موٹی موٹی شناخت لکھنی تھی، مثلاً امام سے حمایت کرتا ہوں اور امام ہماری تائید میں ہیں، بڑی تعداد میں چھاپا گیا۔ پروگرام اس طرح طے پایا کہ اگلے دن صبح کے بعد برادران میں سے کوئی سیکیل پر اور عام کارگر کے کپڑوں میں میر ے گھر پر آئے گا اور ہمیں بہت تیزی کے ساتھ کاغذات کو تھیلے میں سیکیل پر رکھیں گے اور وہ فوراً دور ہوگا ۔
بعد میں وہ بھی کچھ افراد کی مدد سے ان صفحات کو جگہ جگہ پھیلاتے جائیں گے اور وہ لوگوں سے نام اور نشانیوں کے ساتھ دستخط لیتے اور اس طرح تقریباً 18000ہزار دستخط جمع اور تہران ارسال کیاگیا۔
ماخذ: http://www.imam-khomeini.ir/