میرے اور تمام مسلمانون کے عقائد انہی مسائل سے ہے جن کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے یا رسول خدا ؐ اور آپ کے بعد آنے والے پیشواؤں نے ان کو بیان کیا ہے یعنی ہمارے اہم ترین اور قیمتی ترین عقائد کی بنیاد اصول توحید ہے اصول توحید کی روسے ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ صرف حق تعالی ہی اس کائنات تمام عوالم وجود اور انسان کا خالق ہے جو تمام حقائق سے مطلع ہے ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز کا مالک ہے یہ عقیدہ ہمیں سیکھاتا ہے کہ انسان کو صرف ذات مقدس حق تعالی کے سامنے جھکنا چاہئے او رکسی بھی انسان کی اطاعت نہیں کرنی چاہے مگر یہ کہ اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہو، اس بنیاپر کسی انسان کویہ حق حاصل نہیں کہ کسی دو سرے انسان کو اپنی اطاعت پر مجبور کرے ہم اس بنیاد ی عقیدے اور اصول سے آزادی بشر کادرس حاصل کر تے ہیں یعنی کسی فرد بشر کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی انسان، معاشر ے یا قوم کو آزادی سے محروم کرے اس کے لئے قانون بنائے چونکہ اس کی معرفت وادراک انتہائی ناقص ہے ۔
لہذا اسے نہیں چاہئے کہ انسانی روابط، طرز زندگی اور چال چلن کا تعین کرے یا اپنی خواہشات کے مطابق انہیں مرتب کرے ، اصول توحید ہی کی روسے ہمارا یہ بھی عقیدہ ہی کہ پیشرفت اور ترقی و کمال کے لئے قانون بنانے کا حق صرف خدا تعالی کو حاصل ہے جیسا کہ ہستی و خلقت کے قوانین اللہ تعالی ہی کی طرف سے بنائے گئے ہیں ، معاشروں اور انسان کی سعادت وکمال صرف قوانین الٰہی کی اطاعت سے وابستہ ہے جنہیں انبیاء کے توسط سے بنی نوع انسان کے لئے بیان کیا گیا ہے، نوع بشر کے انحطاط و سقوط کی اصل وجہ سلب آزادی اور دوسرے انسانوں کے سامنے جھکنا ہے ، پس انسان کو چاہئے کہ اسارت و غلامی کی ان زنجیروں کو توڑدے اور ان لوگوں کے مقابل اٹھ کھڑے ہو جو دوسروں کو غلام بناتے ہیں تا کہ معاشرہ آزاد ہو جائے اور سب بندگی خدا میں داخل ہوجائیں ، اسی سے ہمارے اجتماعی قوانین ، استبدادی اوراستعماری قوتوں کے خلاف دعوت قیام سے شروع ہوتے ہیں ، اصول توحید سے ہمیں یہ درس بھی ملتا ہے کہ تمام انسان خدا کے حضور یکسان ہیں ، وہ سب کا خالق اورتمام مخلوق اسی کی بندگی پر مامور ہیں ، انسانی برابری اور مساوات کے اس اصول اور یہ کہ کسی انسان کا دوسرے سے امتیاز و برتری کا تنہا معیار تقوی اور انحراف و خطا سے پاک ہونا ہے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہر اس چیز کے خلاف قیام کرنا چاہئے جو معاشرے میں برابری اور مساوات کا خاتمہ کردے اور معاشرے میں بیہودہ اور فضول امتیازات کو رواج دے۔
صحیفہ امام ،ج ۵، ص ۳۸۷