امام خمینی: آل سعود کی وہابی حکومت، مسلمانوں کے قلب پر خنجر کی مانند ہے

امام خمینی: آل سعود کی وہابی حکومت، مسلمانوں کے قلب پر خنجر کی مانند ہے

البتہ انھوں نے یہ صـــدا اور فغاں، سعودی عقوبت خانوں میں اپنی زندگی کے کئی سال بسر کرنے، تمام تر اذیتیں جھیلنے اور مظالم کا مشاہدہ کرنے کے بعد بلند کی۔

گزشتہ ایام میں بلاد الحرمین کی ایک نام نہاد "عدالت" نے آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا جو آل سعود شاہ نے، عالمی احتجاجات اور مخالفتوں کے باوجود، تخیلاتی اور جھوٹے الزامات، فرقہ وارانہ جذبات برانگیختہ کرنے، عرب خلیجی حکام اور علماء کی توہین کرنے نیـــز خدا کے خلاف اعلان جنگ کرنے (درحقیقت سعودی امیر کے خلاف بولنا، اللہ سے جنگ کرنے کا مترادف قرار دے دیا ہے) جیسے الزامات پر تصدیقی مہر لگا کر قطیف کے ایک دینی عالم اور راہنما، شیخ نمر باقر النمر کے سر قلم کرنے کا حکم جاری کیا جو چند دنوں پہلے وہابی سعودی جلاد کے ہاتھ، جاری ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ـ وسیعلموا الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ـ صدق اللہ العلی العظیم

لیکن اصل ماجرا یہ ہے کہ شیخ باقر النمر کی گرفتاری اور حکم موت کا سبب ان کے وہ جراتمندانہ خطابات ہیں جن میں انہوں نے سعودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور مملکت حجاز کے مشرقی خطے کے محروم عوام کے حقوق کی بازیابی کےلیے عوام کو مسالمت آمیز طریقے سے میدان عمل میں اترنے کی دعوت دی۔

نمر باقر النمر ایک بلند پایہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ، ایک متقی اور پرجوش خطیب بھی تھے۔ آپ، اکثر خطبات جمعہ میں کہتے تھے: میں کلمہ حق ادا کرنے سے نہیں ڈرتا۔ چاہے اس کےلیے مجھے پابند سلاسل کیا جائے، مجھ پر تشدد ہو یـــا مجھے شہید کردیا جائے۔

آیت اللہ اپنی تقاریر میں اکثر کہا کرتے تھے: سعودی حکومت کی نظر میں، شاہی خاندان کے افراد پہلے درجے کے شہری، ان سے متمسک اور نزدیک افراد دوسرے درجے کے شہری، اور آخرکار، مشرقی خطے میں بسنے والے افراد (شیعی ہو سنی) تیسرے درجے کے شہری ہیں!!

الشرقیہ کے عوام وہ لوگ ہیں جن کی مٹی سے کالا سونا نکال کر تم (آل سعود شاہی خاندان) اپنی تجوریاں بھرتے ہو، لیکن اس خطے میں غربت اور افلاس روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

شیخ نمر کھلے عام سعودی حکمرانوں کو للکار کر کہتے تھے: تم نے اس خطے کے عوام کے وقار کو مجروح کیا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کیا۔

البتہ انھوں نے یہ صـــدا اور فغاں، سعودی عقوبت خانوں میں اپنی زندگی کے کئی سال بسر کرنے، تمام تر اذیتیں جھیلنے اور مظالم کا مشاہدہ کرنے کے بعد بلند کی۔

وہابی آل سعود حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ اس شخص کا قتل یــا آزادی، شاہی خاندان کےلیے نقصان دہ ہیں۔ بنابرایں، آج وہ شیخ نمر پـر، نخ نما اور جھوٹے الزامات دھر رہے ہیں جو ہر دور کا مطلق العنان حکمران اپنی حکومت واقتدار کے باغیوں پر دھراتے چلے آ رہے ہیں۔

یہ وہی الزامات ہیں جو آج کے یزیدیوں کا سالار یزید کافر نے امام عالی مقام حسین بن علی علیہما السلام پر دھرے اور اس سے پہلے ابوذر غفاری پر دھرے گئے تھے، بعد میں میثم تمار پر بھی وہی الزامات لگا کر آپ کو سولی پر جھولنا پڑا۔ و ...

مگر جو لوگ تاریخ سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ابوذر، میثم تمار اور حسین ابن علی(ع) کو مجرم ٹھہرانے والے معدوم ہوگئے اور وہ جو کل ملزم ٹھہرائے گئے تھے، آج حق گوئی، استقلال اور حریت کا استعارہ اور اسوہ قرار پائے۔

آیت اللہ شیخ نمر باقر النمر کے ساتھ سعودی حکومت جو بھی معاملہ کرے، آج اس کی طاقت اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے لیکن تاریخ کبھی کسی مجرم کو معاف نہیں کرتی اور نفرت ولعنت، ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔

امام خمینی(رح) نے آج سے کئی سال قبل، اپنی باریک بین نگاہ سے، اس منحوس آل سعود خاندان سے متعلق فرمایا:

ان (آل سعود) کا کام سوائے اس کے کچھ نہیں کہ امریکا اور اسرائیل کا آلہ کار بنتے ہوئے اپنے ملکی مفادات کو ان کے حوالے کریں ...

اس سے بہتر تعبیر نہیں ملتی کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےلئے آل سعود کی وہابی حکومت کی مثال اس خنجر کی مانند ہے جو پیٹھ پیچھے سے مسلمانوں کے قلب پر گھونپا گیا ہو ...

یقینا آل سعود نے ابوسفیان، ابولہب اور یزید کی وراثت کا ثبوت دیتے ہوئے شقاوت کی ایسی بدترین مثال قائم کی ہے کہ جس سے انسانیت شرمندہ ہے۔

1987 ء کے حج کے موقع پر امام خمینی(رح) کا پیغام

 

والسلام علی عباد اللہ الصالحین

ای میل کریں