اس قدر عظیم کام، یعنی پوری دنیا میں حقیقی عادلانہ نظام کے نفاذ کیلئے تمام انسانوں میں سوائے مہدی موعود (عج) کے جنہیں اﷲ نے بشریت کی نجات کیلئے باقی رکھا ہوا ہے اور کوئی نہیں ہے۔ جو بھی نبی آیا وہ عدل کے نفاذ کیلئے آیا۔ ان انبیاء کا مقصد یہ تھا کہ وہ پورے عالم میں عدل کو جاری وساری کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہوئے یہاں تک کہ حضرت ختمی مرتبت ﷺ جو بشریت کی اصلاح، نظام عدل کے قیام اور تربیت بشر کیلئے آئے تھے بھی اپنے زمانے میں اس مقصد میں مکمل طورپر کامیابی نہ پاسکے۔ جو شخص مکمل طورپر اس مقصد میں کامیاب ہوں گے اور پوری دنیا میں عدل قائم کریں گے وہ صرف حضرت حجت ؑ ہیں ۔ یاد رہے کہ اس عدل سے مراد وہ عدل نہیں جو عام لوگوں کے ذہن میں ہے یعنی زمین کے اندر لوگوں کے رفاہ کیلئے عدل سے کام لینا، بلکہ انسانیت کے تمام مراتب ومراحل میں عدل مقصود ہے۔ انسانوں کے درمیان قیام عدل سے یہ مراد ہے کہ اگر انسان عملی، روحانی اور فکری لحاظ سے انحراف کا شکار ہوجائے تو اس انحراف کی اصلاح کی جائے۔ اگر کسی انسان کا اخلاق خراب ہوجائے پھر اس خرابی کا خاتمہ ہو اور وہ دوبارہ حد اعتدال پر آجائے تو یہ عدل کی طرف برگشت ہے۔ اسی طرح اگر عقاید میں کجی یا انحراف آجائے تو ان غلط عقائد کو ایک درست عقیدے اور صراط مستقیم کی طرف دوبارہ لوٹانا انسان کے ذہن وفکر کے اندر عدل قائم کرنے سے عبارت ہے۔
مہدی موعود (عج) کو اﷲ نے محفوظ رکھا ہے، کیونکہ اولین وآخرین میں سے کسی کو یہ طاقت حاصل نہیں ہوئی اور صرف حضرت مہدی موعود ؑہی وہ شخصیت ہیں جو پورے عالم میں عدل قائم کریں گے۔ جس چیز میں انبیاء کو کامیابی نہ مل سکی اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اﷲ نے آپ کو باقی رکھا ہے۔ اگرچہ یہ وہی مقصد ہے جس کیلئے انبیاء آئے تھے لیکن مشکلات وموانع نے اسے عملی جامہ پہنانے کا انہیں موقع نہیں دیا۔ اسی طرح سارے اولیا کی بھی یہی خواہش تھی لیکن وہ اس کو جاری وساری نہ کرسکے اس مقصد کی عملی تعبیر کیلئے اﷲ نے اس عظیم ہستی کو باقی رکھا ہے۔
صحیفہ امام، ج ۱۲، ص ۴۸۰