۱۳۶۴ ھ ش کو ماہ خرداد کے اوائل میں جبکہ ماہ مبارک رمضان بھی تھا عراق کے جنگی جہاز دن رات بے وقفہ تہران پر حملے کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی AntiAir Craft کی ڈراونی اور کان پھاڑنے والی صدائیں خاص کر تہران کے شمال کی طرف پہاڑیوں سے یوں گونجتی تھیں کہ سب کا جینا حرام جاتا تھا۔ صبح جب ہوتی تو سب رات بھر جگنے کی وجہ سے سست ہوتے اور ان کی آنکھیں خواب آلود ہوتی تھیں اور ان کے کام کاج کا نظم وضبط درہم برہم ہوجاتا تھا۔ جبکہ امام کسی کی ہدایت کے پابند نہیں تھے، بلکہ وہ خود ہی اپنی مرضی اور ٹائم ٹیبل کے تحت اپنے امور انجام دیتے تھے۔ ان حالات میں کہ دن کے پہلے حصے میں چونکہ کچھ زیادہ سکون ہوتا تھا سب لوگ چاہتے تھے کہ سو جائیں لیکن امام ؒ ہمیشہ کی طرح روزانہ ٹھیک صبح ۸ بجے تر وتازہ حالت میں کام اور ملاقات کیلئے اپنے کمرے میں پہنچتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر عارفی جو ہمیشہ امام کی صحت وسلامتی کے لحاظ سے خیال رکھنے کیلئے موجود رہتے تھے انہوں نے امام سے معاینہ کے بعد سوال کیا کہ ماہ رمضان میں ، ان دنوں آپ کی نیند کیسی ہے، کم تو نہیں ہوئی؟ امام ؒ نے جواب دیا: ’’نہیں !‘‘ ڈاکٹر نے دوبارہ سوال کیا: کچھ بھی فرق نہیں پڑا ہے؟ امام نے دوبارہ تاکید سے فرمایا: ’’نہیں !‘‘۔