خدا تعالیٰ نے جو چیزیں مقرر کی ہیں، ہم ان کے راز سے تب تک آگاہ نہیں ہوتے ہیں جب تک ان کا وقت گزر نہیں جاتا ہے۔ عراقی حکومت پر ایرانی حکومت اور محمد رضا شاہ کے دباؤ اور ان کی جانب سے ہمارے گھر کی نگرانی کے بعد، عراقی حکومت کے عہدیداروں اور ہمارے درمیان جو ملاقاتیں اور مذاکرات ہوئے ان میں ہم نے ان کو خبردار کیا کہ یہ ایک شرعی معاملہ ہے۔ ایک الٰہی ذمہ داری ہے اور میں ایک شرعی معاملے اور ذمہ داری کو تمہارے کہنے پر ترک نہیں کرسکتا ہوں ۔ میں ان کاموں کو جو یہاں انجام دے رہا ہوں، انجام دیتا رہوں گا۔ تم بھی جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرو۔ انہوں نے ہم سے التجا کی کہ چونکہ ہمارا ایرانی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ ہوا ہے اور جو کچھ آپ اور آپ کے ساتھی کررہے ہیں، وہ اس سمجھوتے کے منافی ہے۔ اس لیے ہم ان کاموں کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ تمہارا سمجھوتہ ہے۔ میری ایک شرعی ذمہ داری ہے، اس پر میں عمل کروں گا اور تمہارے سمجھوتے کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں منبر پر تقریریں بھی کروں گا، اعلامئے بھی جاری کروں گا اور کیسٹ بھی ریکارڈ کر کے بھیجوں گا۔ یہ میرا فرض ہے۔ تمہاری بھی جو ذمہ داری ہے، تم اسے انجام دو۔ ملاقاتوں کے بعد انہوں نے میرے بھائیوں کو، کہ جو نجف میں میرے دوستوں میں شمار ہوتے تھے، ڈرایا دھمکایا اور مجھے پتہ چلا کہ انہوں نے ان سے کہا ہے کہ ہمیں خود ان سے مثلاً، کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن تمہیں فلاں انجام سے دوچار کردیں گے۔ میں نے جب یہ دیکھا کہ ممکن ہے کہ میرے ان دوستوں کو کوئی نقصان پہنچائیں تو میں نے سفر کا ارادہ کرلیا اور میں کویت کی سرحد پر چلا آیا (البتہ عراقی حکومت کی نگرانی میں ) اور کویت کی سرحد پر بھی وہ دباؤ جو عراقی حکومت پر تھا، کویت کی حکومت پر بھی تھا اور انہوں نے ہمیں شہر عبور کر کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کی بھی اجازت نہیں دی، البتہ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ وہ اپنے سمجھوتوں کے مطابق عمل کرنے کے پابند تھے۔ مجھے نہ تو عراقی حکومت سے گلہ ہے اور نہ ہی کویت کی حکومت سے۔ لیکن خدائے تبارک وتعالیٰ نے یہ مقرر کیا تھا اور ہم اس سے غافل تھے۔
ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ دو تین دن حضرات کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کے بعد کویت سے شام جائیں گے اور وہاں طویل مدت تک رہیں گے۔ لیکن خداوند نے یہ تقدیر لکھی تھی کہ راہ، دوسری ہی چیز ہو اور ہم نہیں جانتے تھے کہ اس تقدیر کا انجام کیا ہوگا۔
صحیفہ امام، ج ۶، ص ۲۲۶۔