نشنل پارٹی کے نائب صدر حجت السلام والمسمین جناب منتخب نیا نے کہا کہ: عورتوں کا الیکشن میں حصہ لینا بہت خوشی کی بات ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہییے تاکہ عورتیں الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں
ایسنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق جماران نے لکھا کہ: حجت الاسلام والمسلمین جناب منتخب نیا نے ھم فکری کانفرسوں کے سلسلہ کی تیسری کانفرس میں الیکشن اور عورتوں کے موضوع پر بولتے ہوے کہا کہ: دانشور حضرات اور حکام بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے تو اس نصف آبادی کی حاکمیت بھی عورتوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے لیکن آج تک ایسا کیوں نہیں ہو سکا۔
جب ایک عورت تیسری پارلیمنٹ کی مجلس اعلی آنا چاہتی ہے تو بعض بزرگ حضرات اس کی مخالفت کرتے ہیں یا جب ایک عورت کو وزیر بنایا جاتا ہے تو بعض لوگ دھمکی آمیز پیغامات کے ذریعہ اسکی مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
انھوں نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ: کیا اسلام اورمذھب تشیع عورتوں کی حاکمیت کے خلاف ہیں ؟ کیا فقہ اور اسلامی حقوق میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کے عورتیں بھی معاشرے میں مختلف کاموں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کریں ؟ یہ وہ سوال ہیں جو کافی سالوں سے ھمارے ذھنوں میں ہیں۔
انہوں نے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے جب امام خمینی علیہ الرحمہ نے حکم دیا کہ عورتیں بھی مظاہروں میں شرکت کریں تو بہت سارے علماء اعتراض کیا کہ یہ کام شریعت کے خلاف ہے لیکن امام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے بات پر ڈٹے رہیں ان کی بات نہیں سنی اور اس وقت سے لیکر آج تک سخت سے سخت شرائط میں بھی عورتیں ہر میدان میں پیش قدم رہی ہیں
نیشنل پارٹی کے نائب صدر نے کہا کہ:میں فقہ اور حقوق کے سلسلہ میں صاحب نظر ہونے کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ : بہت سارے ایسے مسائل جو آج عورتوں کے بارے میں پیش کئے جاتے ہیں ممکن ہے فتوے کے لحاط سے ان میں اشکالات ہوں لیکن اجتھاد، مذھب شیعہ کی تابناکیوں میں سے ہے مگر ہمارے آج کے مجتھدین گذشتہ مجتھدین جیسے علامہ حلی وغیرہ سے زیادہ عالم ہیں۔ اجتھاد کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ مجتھدین، زمان اور مکان کو نظر میں رکھ کر دینی مسائل کو حل کریں اور ہمیں ایسے دین پر فخر ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ: میرا عقیدہ ہے کہ اگر مسائل کو ایک نئی نظر سے دیکھا جاے تو معاشرے کے بہت سارے امتیازات خصوصا مرد اور عورت کے درمیان موجود امتیازات ختم ہو سکتے ہیں۔
منتجب نیا نے سابقہ گورنمنٹ پر تنقید کرتے ہوے کہ:جس وقت جنسیت میں جدائی بحث کو مطرح کیا گیا تو بھت سارے علماء نے سابقہ گورنمنٹ کی حمایت میں تالیاں بجایں وہ اس طرح بات کرتے ہیں صرف جنسیت میں اختلاف پیدا کر کے سوچتے ہیں کہ انقلاب برپا کیا ہے اس طرح کی تجویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری فکروں میں ایک خاص قسم کے نظریات رچ بس گئے ہیں جبکہ امام خمینی علیہ الرحمہ اس طرح کے مسائل کو بدل کر رکھ دیا تھا لیکن آج ان کے نظریات فراموشی کی نظر ہوتے جارہے ہیں اور پھر سے معاشرہ سے کٹتی سی جارہی ہے اور قدامت پرستی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔
انہوں نے کہا: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے معاشرہ اور فقہ کے درمیان صلح و آشتی برقرار کروائی تھی لیکن افسوس آج ہمارا فقہی طریقۂ کار سابقہ طریقۂ کار سے نزدیک ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر جوان مجتھد حضرات میدان میں آٗئیں تو ہم ایک روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا سکتےہیں اس لئے کہ جوان زمان اور مکان دونوں عناصر کو مدنظر رکھیں گے ۔