اے عزیز جو انو اور ان اوراق کا مطالعہ کرنے والو! اس راقم کے حال سے عبرت حاصل کر جو اس وقت مٹی کے نیچے دوسری دنیا میں اپنے برے اعمال اور نامناسب اخلاق کے نتائج بھگت رہا ہے۔ اس نے اپنا قیمتی وقت سستی اور ہوا وہوس کی نذر کردی اور اپنے اس خدائی سرمایہ کو ضائع وبرباد کردیا۔
اے عزیز! اپنا خیال رکھ کہ ایک دن تو بھی ہماری طرح ہوجائے گا اور تجھے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ دن کیسا ہوگا۔ شاید تو اس وقت مطالعے میں مصروف ہو۔ اگر سستی کروگے تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
اے میرے بھائی! ان امور کو کل پر مت ٹال کیونکہ ان کو ٹالنے کی گنجائش نہیں ہے۔ کتنے ہی تندرست اور صحیح وسالم لوگ ناگہانی موت کے ہاتھوں چل بسے ہیں اور نہیں معلوم ان کا انجام کیا ہوا؟ پس وقت ضائع مت کرو اور ایک ایک سانس کو غنیمت جان کیونکہ ذمہ داری نہایت سنگین ہے اور سفر نہایت خطرناک۔
یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اگر تو اسے گنوا دے گا تو پھر موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور تو نفسانی مفاسد کی اصلاح سے عاجز رہ جائے گا۔ یوں حسرت، افسوس، پریشانی، عذاب اور ذلت کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔ اولیائے الٰہی کو ایک لمحے کیلئے بھی آرام میسر نہیں تھا۔ وہ اس خوفناک سفر کے خیال سے ہرگز غافل نہیں رہتے تھے۔
چہل حدیث، ص ۱۵۰