لوگوں کا ظلم وستم اور ان کی گمراہی پیغمبر ؐ پر بہت گراں گزرتی تھی اور آپ ؐ اس سے بہت آزردہ خاطر ہوتے تھے۔ آنحضرت ؐ لوگوں کے رنج والم، ان کی گمراہی اور ان کے گناہوں کی بنا پر محزون ہوتے تھے اور آپ ؐ تمام وجود کے ساتھ ان کی ہدایت ونجات کیلئے کوشاں رہتے تھے۔ امام خمینی ؒ اس بارے میں فرماتے ہیں :
حضرت محمد مصطفی ﷺ کے یہ کلام کہ { مٰا أُوذِيَ نَبِيٌّ مِثْلَ مٰا أُوْذِیْتُ} ’’جتنی اذیت مجھے دی گئی کسی اور پیغمبر کو نہیں دی گئی‘‘۔کے معنی بھی یہی ہیں ، کیونکہ جو بھی ربوبیت کی عظمت وجلالت کو زیادہ درک کرتا ہے اور حضرت حق تعالیٰ کے مقام مقدس کو زیادہ پہچانتا ہے وہ بندگان خدا کی معصیت اور ان کی ہتک حرمت سے بیشتر ملول ومحزون ہوتا ہے اور جو بھی بندگان خدا سے الفت ومہربانی، رحمت وعنایت زیادہ رکھتا ہے اس کو ان کی کج روی وبدبختی سے زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ البتہ خاتم الانبیاء ﷺ ان مقامات میں ، بلکہ تمام کمالات کے درجات میں دیگر انبیاء واولیاء (ع) اور تمام نبی نوع انسان سے اکمل وافضل تھے۔ اسی بنا پر آپ ؐ سب سے زیادہ ملول ومتاذی ہوتے تھے‘‘۔۱؎
انبیاء (ع) جو محزون ومتاذی ہوتے تھے تو اس کا سبب یہ تھا کہ یہ بندے [جو اس دنیا میں آئے اور بندے ہیں ] کیوں اپنے کو خودمختار سمجھتے ہیں ، اپنے لیے کام کرتے ہیں اور برائیاں کرتے ہیں ؟ انبیاء (ع) اس لیے ہمدردی کرتے تھے۔ میرے خیال سے { مٰا أُوْذِيَ نَبِيٌّ مِثْلَ مٰا أُوْذِیْتُ} کے ایک معنی یہی ہیں ۔ میرے نزدیک جو معرفت پیغمبر اسلام ﷺ رکھتے تھے وہ دوسرے نہیں رکھتے تھے، خواہ ان کے درجات کتنے ہی بلند ہوں اور جس کے درجات بلند وبالا ہوتے ہیں وہ اس دنیا میں انجام دی جانی والی معصیتوں کی زیادہ اذیت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ اگر وہ یہ سنتا ہے کہ دنیا کے کسی میں کسی کو کسی شخص نے ستایا ہے تو وہ غمگین ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر نہیں کہ یہ میرے شہر ومملکت یا رشتہ داری کا مسئلہ ہے، بلکہ اس لیے کہ ایک شخص دنیا میں مظلوم واقع ہوا ہے‘‘۔۲؎
۱۔ چہل حدیث، ص ۲۴۶۔ ۲۔ صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۲۰۵۔