حکومت تشکیل نہ دینے کے منفی آثار

حکومت تشکیل نہ دینے کے منفی آثار

ہم نیک وصالح حکومت کا نظام چاہتے ہیں اور یہ بات واضح ہے

پس اگر اسلامی احکام کو باقی رہنا ہے اور حکمران گروہ کی جانب سے کمزور لوگوں کے حقوق کے پامال کئے جانے کو روکنا ہے، نیز حکمران گروہ کو اس بات سے روکنا ہے کہ وہ لذت اور اپنے مادی فائدہ کیلئے لوگوں کو غارت نہ کریں اور انھیں بے راہ روی کا شکار نہ بنائیں۔ اگر اسلامی نظام کو برقرار رہنا ہے اور لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی عدل وانصاف کے دائرہ میں زندگی بسر کریں اور اس سے تجاوز نہ کریں، اگر ضروری ہے کہ بدعت کو روکا جائے اور ناحق کمیٹیوں کے ہاتھوں اسلام کے خلاف قوانین تدوین نہ ہونے پائیں اور اغیار کو اسلامی ممالک سے نکالا جائے تو ایک حکومت ہونا لازمی ہے، کیونکہ یہ سب امور حکومت کے بغیر انجام نہیں پاسکتے، البتہ ایک صالح (ومنصف) حکومت کی ضرورت ہے ورنہ موجودہ حکمراں بے فائدہ ہیں، کیونکہ ظالم وجابر ہیں اور اہلیت نہیں رکھتے۔

        کیونکہ ماضی میں ہم نے حکومت تشکیل دینے اور خیانت کار اور بد عنوان حکمرانوں کے تسلط کو ختم کرنے کیلئے متفقہ طورپر قیام نہیں کیا اور بعض نے سستی وکاہلی سے کام لیا یہاں تک کہ اسلامی نظریہ ونظام کی تبلیغ سے گریز کیا، (صرف یہی نہیں) بلکہ ظالم وستمگر حکمرانوں کے حق میں دعا کی! اس طرح کے حالات پیدا ہوئے اور معاشرہ میں اسلامی نفوذ وحاکمیت کم ہوگئی، ملت اسلام تتر بتر اور  کمزور وناتواں ہوگئی جس کے نتیجہ میں اسلامی احکام نافذ نہ ہوسکے اور ان میں تغییر وترمیم کی گئی۔ استعماری وطاغوتی طاقتوں نے اپنے منحوس اغراض ومقاصد کیلئے اپنے سیاسی ایجنٹوں کے ذریعہ مسلمانوں میں بیرونی قوانین اور اجنبی کلچر رائج کر کے ان کو مغرب زدہ بنا دیا۔ یہ سب اس وجہ سے تھا کہ ہمارے پاس ایک منصف سربراہ اور رہبر نہیں تھا۔ ہم نیک وصالح حکومت کا نظام چاہتے ہیں اور یہ بات واضح ہے۔

(ولایت فقیہ، ص ۴۱)

ای میل کریں