آقائے طباطبایی اور انکے علمی مقام کو زندہ رکھا جائے

آقائے طباطبایی اور انکے علمی مقام کو زندہ رکھا جائے

دنیا،انسان کے لئے خلق ہوئی ہے انسان،دنیا کے لئے نہیں۔ اس صورت میں انسان کو، پہلے اپنی ذات کو پہنچانا چاہیئے، عقل اور واقع بینی سے اپنی اور معاشر ے کی بہتری و صلاح کو تشخیص د ے، پھر کام اور محنت کرے، نہ کے دل کو جو چیز پسند آئے خود کو اس میں گرفتار کر ے

جماران رپورٹ کے مطابق: امام خمینی(رح) نے صاحب  تفسیر المیزان علامہ طباطبائی کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اس عظیم سانحے پر ملت ایران اور تمام حوزات علمیہ کی خدمت میں تسلیت پیش کرتاہوں اور دعا گو ہوں کہ خدا انہیں اسلام کے خدمت گزاروں اور اولیاء الہی کے ساتھ محشور فرمائیں ۔ " آقائے طباطبایی بہت بڑ ے انسان ہیں اور انھیں ان کے علمی مقام کے ساتھ زندہ رکھنا ضروری ہے ۔ " (صحیفه امام، ج15، ص 363)

علامہ کی شخصیت کے بار ے میں مقام معظم رہبری فرماتے ہیں :

یہ جوش مارتا ہوا چشمہ ہیں اور علم و عرفان اور اسلامی تقوی کے فیاض ہیں جنھوں نے تعلیم اور تربیت کے میدان میں ایسے شاگر پیش کیاہے کہ جن میں سے ہرایک عالم اسلام میں ایک برجستہ و منفرد عالم دین ہے یہ بہت بے مثال توفیق ہے جوآپ کو نصیب ہوئی ۔ آیت اللہ علامہ طباطبایی اسلام کے معارف اور ثقافت کا مجموعہ ہے ۔

محمد جواد مغیہ (معروف لبنانی مولف) :

’’ جب سے المیزان میر ے ہاتھوں پہنچی ہے میراکتابخانہ بالکل بند ہوچکاہےاور میری میز پر مطالعہ کےلئے کتاب ِالمیزان ہوتی ہے ۔‘‘

آیت اللہ ابراہیمی امینی:

" ان شخصیات میں سے ہیں جو تمام علمی،فلسفی اوراسلامی شعبوں میں اعلی ماہرت اوربے مثال عبور رکھتے تھے،آپ کی شخصیت علمائے اسلام میں کم نظیر ہیں ۔"

آیت اللہ العظمی خویی :

’’ علامہ ایک متفکر ذہن اور انتہائی اونچا،زبردست اور توانائیوں سے بھر ہو ئے انسان ہیں ۔ ‘‘

آپ کے بار ے میں امام خمینی (رح) اور مقام معظم رہبری اور دیگراں کے بیانات کا اندازہ عالم اسلام کی اس منفرد متفکر اور بے مثال شخصیت کی فکر کی گہرائی اور وسعت درک کرنے ہی ممکن ہے،چنانچہ علامہ طباطبایی(قدس)اسلام کی نظر میں معیار عقل ہونے،اسلام کی حقیقت کہاں ہے اور دُنیا کے بار ےمیں،آپ کا نقطہ نظر پڑھنے سے ایک حد تک اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت ان ہستیوں کے لئےکس قدرعظیم اور عزیزتھی اور ہے ۔

اسلام کا مرکز و معیار عقل ہے

اسلام،انسانی معاشر ے سے یہ نہیں کہتا کہ؛ میں تمہاری سعادت و خوشبختی کو میری دعوت کی پیروی اور اس پر عمل کرنے میں دیکھتاہوں اور تم بھی میری تشخیص اور پہنچا پر ایمان لے آؤ اور اسے قبول کرو۔ بلکہ اسلام کہتا ہے ہوی اور ہوس بازی اور خرافات پرستی سے باز آجاؤ، اور واقعاً و حقیقتاً جس چیز میں تمہاری اور تمہار ے معاشر ے کی بھلائی اور سعادت ہے اور تمہاری خداداد فطرت بھی اسے خیر اور کامیابی سمجھتی ہے ۔ اسی پر پابند رہو اور عمل کرو ۔ بلاآخر اسلام حق پر مبنی اعتقاد اور حق پر قائم عمل ہے۔ اسلام،صرف کچھ اعتقادات اور ایسے اعمال جن پر آنکھ بند کر کے اندہی تقلید میں ایمان لا نےکا نام نہیں ۔  

اسلام کی حقیقت کہاں ہے ؟

جب علامہ سے پوچھتے تھے کہ کیوں ابھی تک اسلامی ممالک میں سے کوئی بھی سرزمین ترقی یافتہ ممالک میں سے نہیں؟ آپ اس تلخ حقیقت کی تاکید کرتے تھے اور کہتے تھے : " ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان ممالک میں جن پر اسلامی نام ہے، اسلامی قوانین جاری ہوتے ہیں؟ اس بات سے ہٹ کر کے کہ ان پر صرف دین کا نام رکھا گیا ہے، کیا اسلام کی حقیقت سے انھوں نے کچھ بہرہ و فائدہ بھی لیاہے یا صرف بعض اسلامی عبادات جیسے نماز، روز اور حج کو عادت ہونے پر انجام دیتے ہیں؟ کیا اسلام کے فردی،اجتماعی،حدودی اور حقوقی قوانین میں کسی کو زندہ رکھا ہے؟ اگر زندہ نہیں ہے، کیایہ بات بے وقوفی نہیں کہ اسلامی ممالک کے انحطاط اور زوال کو اسلام کی گردن پر ڈالیں ۔ (حریم امام ش: 193ص19)

دنیا،انسان کے لئے

اسلام کہتا ہے : " حقیقت یہ ہے کہ دنیا،انسان کے لئے خلق ہوئی ہے انسان،دنیا کے لئے نہیں۔ اس صورت میں انسان کو، پہلے اپنی ذات کو پہنچانا چاہیئے، عقل اور واقع بینی سے اپنی اور معاشر ے کی بہتری و صلاح کو تشخیص د ے، پھر کام اور محنت کرے، نہ کے دل کو جو چیز پسند آئے خود کو اس میں گرفتار کر ے اور خود کو بھولاد ے ۔ جذبات کے سیلاب کے سامنے تسلیم ہوجائے اور حقیقی مقصد کے اختیار کو ہاتھ سے کھود ے ؛ کیوں کہ انسان کائنات کے اس عظیم خلقت کا جزء ہے اور خود سے کوئی استقلال نہیں رکھتا اور نتیجۃً اسے ایسی راہ اختیار اور طے کرنا چاہیئے جو خلقت بخشنے والی عظیم ذات اللہ سبحانہ تعالی نے نشان دہی کی ہے ۔ (حریم امام ش:193ص19)

ای میل کریں